اسلام آباد (این این آئی)فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پاکستان کو 27 میں سے 26 نکات پر عمل درآمد کے باوجود گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ پرسیاسی رہنماؤں، صحافیوں سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے سوالات اٹھا دئیے۔تفصیلات کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس
پلیئر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان نے 2018 میں طے شدہ ایکشن پلان کے 27 میں سے 26 نکات پر عمل کیا ہے تاہم 6 اقدامات پر مشتمل نئے ایکشن پلان پر عمل ہونا باقی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کو اس فہرست سے نکال دیا جاتا لیکن اسے نئے ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ پہلے ایکشن پلان کا واحد نکتہ بھی شامل ہے۔ایف اے ٹی ایف کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سینئر صحافیوں، سیاست دانوں اور کارکنوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حیرانی کا اظہار کیا اور ایف اے ٹی ایف کی دیانت پر بھی سوالات اٹھائے۔سینئر صحافی مبشر زیدی نے سوال کیا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی کیا وجہ ہے جب اس نے ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 26 نکات کے ایکشن پلان پر عمل کردیا ہے۔جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم نے اس کو عالمی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائے گا اور یہ بازو مروڑنے کا ایک طریقہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا گھر اچھی طرح سے آرڈر میں ہے اور کسی صورت اپنی آزادی پر سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تجزیہ کار جان اچکزئی نے بھی ایف اے ٹی ایف کے فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ ادارہ پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار ہے۔سینئر صحافی
ضرار کھوڑو نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف جیوپولیٹکل پریشر کا بنیادی آلہ ہے، تھا اور بدستور رہے گا۔سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے آفیشنل اکاؤنٹ سے کہا گیا کہ ایف اے ٹی ایف، پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔معروف سنگر علی ظفر نے بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا حقیقت میں؟ایک
اور صارف نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی کریڈیبلٹی پر سوال ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان کے عزم اور ٹاسک فورس کے اہداف کو مکمل کرنے کے باوجود اس کو نظر انداز کیا گیا ہے۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف فنڈنگ روکنے اور انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے خامیوں کے باعث 2018 سے ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ پر موجود ہے۔