اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک اہم عسکری ذریعے نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ایئر بیس کا معاملہ بالکل ناممکن ہے۔‘‘ انہوں نے اس قیاس آرائی کو یکسر مسترد کردیا کہ پاکستان ممکنہ طور پر امریکا کو افغانستان میں مستقبل کے آپریشنز کیلئے اپنا فضائی اڈہ یا اڈے دے سکتا ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق امریکا اور
پاکستان کے دفاعی اور سیکورٹی عہدیداروں کے درمیان حالیہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران ہونے والے مذاکرات سے آگاہی رکھنے والے ذریعے کا بات چیت کے دوران کہنا تھا کہ ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ ذریعے کا کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات بھی ’’مکمل طور پر غلط‘‘ ہیں کہ پاکستانی اڈے امریکا کو دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی جانتے ہیں کہ ہمارا جواب کیا ہوگا۔اس معاملے پر نیویارک ٹائمز کے حالیہ آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے ذریعے کا کہنا تھا کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بھی لکھا تھا کہ سی آئی چیف نے پاکستان کے حالیہ دورے میں اس معاملے پر پاکستان کے دفاعی اور سیکورٹی حکام سے کوئی بات نہیں کی تھی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ سی آئی اے چیف کا دورۂ پاکستان غیر اعلانیہ کیوں تھا تو ذریعے کا کہنا تھا کہ ایسے ٹاپ سیکورٹی عہدیداروں کے دوروں کا اعلان عموماً نہیں کیا جاتا۔ ذریعے نے واضح کیا کہ امریکا کی دو بڑی پریشانیاں ہیں جس کیلئے واشنگٹن کو پاکستان کی مدد
چاہئے۔ اول، افغانستان سے امریکی فوج کے محفوظ انخلاء کی یقین دہانی۔دوم، افغانستان میں اسٹیک ہولڈرز کی مدد کرنا تاکہ وہ کسی طرح کا معاہدہ کرلیں تاکہ افغانستان دنیا کو یہ بتا سکے کہ وہ کابل کو کامیاب انداز سے چھوڑ کر جا رہا ہے۔جب سوال کیا گیا کہ ملک کی دفاعی اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ایئربیس کے ایشو پر وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی قیاس آرائیوں
کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی جواب کیوں نہیں دے رہی، تو ذریعے کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ پہلے ہی اس ایشو پر بات کر چکا ہے اور واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ ایسی کوئی بات زیر غور نہیں۔انہوں نے کہا کہ وضاحت کا ذریعہ ایک ہی ہونا چاہئے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ایسی پالیسی ایشو پر کوئی بھی فیصلہ پالیسی ساز (حکومت) اور پارلیمنٹ ہی
کر سکتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں خبر شائع ہوئی تھی کہ سی آئی اے چیف مسٹر برنز نے حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے پاکستان کے ملٹری چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بات کی تھی۔اس میں مزید کہا گیا تھا کہ دفاعی سیکریٹری لائڈ جے آسٹن سوم نے وقتاً فوقتاً پاکستانی ملٹری چیف سے بات چیت کی ہے
تاکہ افغانستان میں امریکا کے مستقبل کے آپریشنز کے حوالے سے مدد حاصل کی جا سکے۔ نیویارک ٹائمز نے یہ بھی بتایا تھا کہ جن لوگوں کو اس پر بریفنگ دی گئی ہے ان کے مطابق مسٹر برنز نے ایئر بیس کے ایشو پر اپنے دورے کے دوران بات نہیں کی تھی، دورے میں انسداد دہشت گردی کے وسیع تر آپریشنز پر بات ہوئی تھی۔جن لوگوں کو اس حوالے سے
بریفنگ دی گئی ہے ان کے مطابق مسٹر آسٹن کی کچھ بات چیت زیادہ براہِ راست رہی تھی۔ اب کسی بھی طرح کے معاہدے کی صورت میں غیر اطمینان بخش حقیقت یہ ہوگی کہ پاکستانی حکومت نے طویل عرصہ سے طالبان کی حمایت کی ہے۔بات چیت سے آگاہ تین امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان بات چیت میں پاکستان کی طرف
سے کئی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے جس کے عوض ایئربیس کے استعمال کی اجازت دی جائے گی، اور ساتھ ہی لازمی طور پر یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ دونوں فریقین مل کر اس ہدف کے متعلق طے کریں گے جسے فوج یا سی آئی اے افغانستان میں نشانہ بنانا چاہتی ہوگی۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے حال ہی میں اس بات کی تردید کی تھی کہ پاکستان میں کوئی
امریکی فوجی یا ایئر بیس ہے، کہا گیا تھا کہ ایسی باتیں قیاس آرائی، بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں جن سے گریز کرنا چاہئے۔ گزشتہ ہفتے جاری کردہ بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان میں کوئی امریکی فوجی ہے اور نہ ایئربیس، نہ ہی کسی ایسے منصوبے پر غور کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر کوئی بھی قیاس آرائی غیر ذمہ دارانہ ہے جس سے گریز کرنا چاہئے۔