کراچی (این این آئی) وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو شوکت ترین نے اعلان کیا ہے کہ یکم جولائی 2021 سے ایف بی آر کی جانب سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا جائے گا کیونکہ ٹیکس دہندگان از خود تشخیص کرسکیں گے جبکہ صرف 4 سے 5 فیصد کیسز آڈٹ کے لیے بھیجے جائیں گے جو ایف بی آر کی بجائے تیسرے فریق کے ذریعے
انجام دیے جائیں گے۔میں ایف بی آر کی جانب سے ہراسانی کو ختم کرنا چاہتا ہوں اگرچہ ایف بی آر میں اچھے لوگ موجود ہیں لیکن کچھ پریشان کرنے والے بھی موجود ہیں لہذا یونیورسل ٹیکس سیلف اسسمینٹ اور صرف تیسرے فریق کے ذریعے آڈٹ پر اتفاق ہو چکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو بی ایم جی (بی ایم جی) لیڈرشپ اور کے سی سی آئی کے عہدیداروں کے ساتھ آن لائن اجلاس میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کے سی سی آئی زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی انجم نثار، جنرل سیکرٹری اے کیو خلیل، صدر کے سی سی آئی شارق وہرہ، سینئر نائب صدر ثاقب گڈلک، نائب صدر شمس الاسلام خان، سابق صدور عبد اللہ ذکی، شمیم احمد فرپو، سابق سینئر نائب صدر جاوید بلوانی اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں شریک تھے۔شوکت ترین نے متنبہ کیا کہ اگر تیسرے فریق کے آڈٹ کے بعد کوئی غلط کام سامنے آیا تو تحقیقات کا آغاز ہوگا اورسخت کاروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک شعبہ تشکیل دیا ہے جس میں لوگوں کے تمام بلوں، ڈپازٹ کی تعداد اور سفری معلومات کاجائزہ لیا جائے گا اور اگر کوئی شخص ٹیکس ادا نہ کرنے کا ذمہ دار پایاگیا تو ایسے کیسز تھرڈ پارٹی کے آڈیٹرز کو ٹیکس ڈیفالٹ ثابت کرنے کے
لیے بھیجے جائیں گے اور اگر ثابت ہو نے پرڈیفالٹرز کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے گا اور اس حوالے سے قوانین وضع کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے یکساں ٹرن اوور ٹیکس پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ اسے معقول بنایا جاسکے کیونکہ متعدد کیسز میں یہ مختلف ہوتا ہے۔وزیر خزانہ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ جب
غیر رجسٹرڈ افراد کی صورت میں تین فیصد جرمانہ وصول کیا جا رہا ہے توشناختی کارڈ کی شرط نہیں ہونی چاہیے لہٰذا انہوں نے ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ اس معاملے کا جائزہ لیا جائے اور شناختی کارڈ کا مطالبہ بند کیا جائے۔ ایف بی آر میں ایک کال سینٹر بھی قائم کیا جائے گا جس میں شکایات کا اندراج کروایا جاسکے گا اور وہ ذاتی
طور پر روزانہ کی بنیاد پر اس کا جائزہ لیں گے تاکہ ایف بی آر میں جوابدہی کو یقینی بنایا جاسکے۔شوکت ترین نے کراچی کے ناقص انفرااسٹرکچر پر اظہار تشویش کے جواب میں بتایا کہ کراچی کے لیے پی ایس ڈی پی کے تحت 900 ارب روپے کا 3سالہ پیکیج مختص کیا گیا ہے جس کو وزیراعظم حتمی شکل دیں گے۔ وزیر اعظم
کی زیرصدارت اجلاس میں رقم مختص کرنے سے متعلق تبادلہ خیال کے دوران وہ یقینی طور پر تاجر برادری کے خدشات کو اجاگر کریں گے اور ان کی وکالت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ایس ایم ایز کو سہولتوں کی فراہمی کی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں 20 لاکھ روپے کے بریکٹ کے تحت آنے والے ایس ایم
ایز کو بغیر کسی سکیورٹی کے ”کلین کریڈٹ“ سہولت فراہم کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے حکومت بینکوں کو 8 فیصد پر خطیر فنڈز فراہم کرے گی جو ایس ایم ایز کو 9 فیصد پر دیے جائیں گے جبکہ کریڈٹ انشورنس حکومت فراہم کرے گی۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ مجموعی طور پر 6 سے 8 ملین ایس ایم ایز میں سے صرف ایک
لاکھ اسی ہزار ایس ایم ایز کو ہی قرضے تک رسائی حاصل ہے لہٰذا اگلے 2 سالوں میں کم سے کم 10 لاکھ ایس ایم ایز تک قرضہ دینے کی سہولت کو بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ایف بی آر کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ایس ایم ایز اور چھوٹے کاروباری اداروں کی ریفنڈز نہ روکے۔ ہم ٹریڈ ایبل بانڈز جاری
کرکے کچھ ماہ میں ریفنڈزکے تمام بقایاجات کو ختم کردیں گے تاکہ کاروباری اداروں کے پاس کافی مقدار میں سرمایہ دستیاب ہوسکے نیز 60 سے 90 دن کے اندر ریفنڈزکی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ایک خودکار نظام متعارف کرایا جائے گا۔شوکت ترین نے ڈی ایل ٹی ایل اسکیم کے تحت زیر التواء 58ارب روپے سے زائد رقوم کی
واپسی سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے بہت اچھا نکتہ قرار دیا اور ایف بی آر کو ہدایت کی کہ رقوم کی واپسی میں تیزی لائی جائے جبکہ اس سال ڈی ایل ٹی ایل کو جمع نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ایف بی آر کے پاس پہلے ہی بہت بڑی رقم واجب الادا ہے۔وزیرِ خزانہ نے انڈیٹرز کمیشن کو بطور برآمدات سمجھنے کی تجویز پر
تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈینٹرز کے کمیشن کو برآمدی آمدنی سمجھنا ایک بہت اچھا مشورہ ہے کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سارے انڈینٹر اپنی آمدنی کو ملک سے باہر رکھنا پسند کرتے ہیں لیکن اگر اس آمدنی کو برآمدی آمدنی کا درجہ دے دیا جائے تو یہ انہیں پاکستان میں اپنی رقوم منتقل کرنے کی ترغیب ملے گی۔انہوں نے
کہا کہ ریونیو کے حصول میں اصلاحات لائی جارہی ہیں جس سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے اور اس پر دگنا ٹیکس عائد نہ ہو۔ آئی ایم ایف ہمارے اوپر دباؤ ڈال رہا ہے کہ ہر قسم کی چھوٹ کو بند کردیا جائے اور موجودہ ٹیکس دہندگان پر 140 ارب روپے کا اضافی ٹیکس عائد کیا جائے جس پر میں نے انکار کردیا۔
انتہائی ضروری استثنی کو نمٹا دیا جائے گا جبکہ باقی جاری رہیں گی۔انہوں نے کہاکہ ہم ٹیکنالوجی اور جدت کا اچھا استعمال کرکے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا رہے ہیں جو نہ جبراً اور نہ ہی رجعت پسند ہو گا بلکہ تاجر برادری کے ساتھ مشاورت سے وضع کیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے 3 ماہ میں کم از کم ایک بار کے سی سی آئی کے ساتھ
باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تاکہ تاجر برادری کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھی جاسکے جبکہ ایف بی آر کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ کے سی سی آئی کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام تکنیکی امور پر غور کرے اور ان کو حل کرے۔اس موقع پر چیئرمین بی ایم جی
زبیر موتی والا نے نشاندہی کی کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے باوجود کراچی نے برآمدات میں 18 فیصد کا اضافہ کیا اور اس کی مجموعی برآمدات 58 فیصد رہی لہٰذا وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی کی صلاحیت کو مد نظر رکھے اور اس کے مطابق اس کو اس کا معقول حصہ دیا جائے جو بدقسمتی سے اب تک نہیں دیا گیا۔انہوں نے کہا
کہ اگرچہ کراچی کی توانائی کی ضروریات کے لیے سبسڈی مختص کی گئی تھی لیکن وزارت توانائی کے مطابق ملک بھر میں یکساں ٹیرف کی ادائیگی کرکے مختص رقم ختم ہوجاتی ہے اور پانچ برآمدی شعبوں کو 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر گیس کے لیے سبسڈی دینے کے لیے کوئی رقم باقی نہیں رہتی۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا
کہ 80 فیصد مال پانچ برآمدی صنعتوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے لیکن ریفنڈز میں تاخیر کی وجہ سے انہیں سرمائے کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا حکومت کو برآمدات پر مبنی پانچ برآمدی صنعتوں کے لیے زیرو ریٹڈ ریجم کو بحال کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے جو برآمدات میں اضافے کے ذریعے معیشت کے
لیے یقینی طور پر سازگار ثابت ہوگا۔ اگر زیرو ریٹڈ ریجم بحال کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر اور بقیہ چاروں صنعتوں کی کارکردگی دو گنا بڑھ جائے گی۔انہوں نے شناختی کارڈ کی شرط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تاجر برادری شناختی کارڈ پیش کرنے میں ناکامی پر 3 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنے پر مجبور
ہے لیکن اس 3 فیصد جرمانہ وصول کرنے کے بعد بھی ایف بی آر شناختی کارڈ کا مطالبہ کرتا ہے جو بالکل بے معنی ہے کیونکہ رجسٹرڈ افراد کی تلاش کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ انہوں نے وزیر خزانہ سے درخواست کی کہ وہ اس سنگین مسئلے کو دیکھیں اور ایف بی آر کو شناختی کارڈ کی شرط واپس لینے کا احکامات جاری کریں۔
انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو گذشتہ ڈھائی سالوں کے دوران بڑی تعداد میں نوٹس موصول ہوئے ہیں جو گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھیجے گئے تمام نوٹسز سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس طرح کے نوٹسز سے کسی بڑی وصولی دیکھنے کا مشاہدہ نہیں ہوا جو صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہے جبکہ ایف آئی اے کی بینک اکاؤنٹس کی معلومات
تک رسائی حاصل ہونے سے صرف کراچی کی تاجر برادری کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔زبیر موتی والا نے خام مال پر غیر معمولی ڈیوٹیز کے حوالے سے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ خام مال تیار کرنے ولی مقامی صنعتوں، مینوفیکچررز کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے خام مال پر حد سے زائد ڈیوٹیز عائد کرنے کی حکمت
عملی اختیار کی گئی ہے لیکن ان کی پیداوار صرف 5 فیصد تک محدود ہے جبکہ خام مال کی طلب کو پورا کرنے کے لیے 95 فیصد درآمد کیا جارہا ہے لہٰذا اس طرح کے خام مال تیار کرنے والی مقامی صنعتوں کو اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک ٹائم فریم دیا جانا چاہیے اور اگر ان کی پیداوار جمود کا شکار رہتی ہے تو حکومت کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور ڈیوٹیز کو کم کردیا جائے چونکہ ان کی وجہ سے برآمد کنندگان کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔