بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

شادی ہی کیوں ؟پارٹنر کیوں نہیں؟ مفتی پوپلزئی نے والد ضیاالدین یوسفزئی سے ملالہ کے بیان کی وضاحت مانگ لی

datetime 3  جون‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، لندن(مانیٹرنگ ڈیسک ،آن لائن) پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی پوپلزئی کی جانب سے ایک ٹویٹ میں ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی سے ان کی بیٹی کے بیان پر وضاحت مانگی گئی ہے۔انھوں نے لکھا: کل سے سوشل میڈیا پرایک خبر زیر گردش ہے کہ آپ کی بیٹی ملالہ یوسفزئی نے رشتہ ازدواج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا

ہے کہ شادی کرنے سے بہتر ہے کہ پارٹنرشپ کی جائے نہ کہ نکاح۔ اس بیان سے ہم سب شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ آپ وضاحت فرمائیں۔یاد رہے کہ طالبات کی تعلیم سے متعلق آواز بلند کرنے والی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ کسی کو اپنی زندگی میں رکھنے کیلئے شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے، مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنی ہے، اگر آپ اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نکاح نامے پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ صرف پارٹنر بن کر کیوں نہیں رہ سکتے؟۔تفصیلات کے مطابق برطانوی فیشن میگزین ووگ کو دیے گئے انٹرویو کے دوران جب ان سے شادی اور محبت سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ ہمیشہ انہیں شادی کی خوبصورت رشتے کے حوالے سے بتاتی رہتی ہیں، اور ان کے والد کے پاس ایسے لوگوں کی ای میلز آتی ہیں جو انہیں اپنی جائیداد اور پیسوں کے بارے میں بتاکر مجھ سے شادی

کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آتا کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنا ہے؟ اگر آپ اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نکاح نامے پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ صرف پارٹنر بن کر کیوں نہیں رہ سکتے؟۔ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ آپ جس شخص کا انتخاب کرتے ہیں وہ قابل

اعتماد ہے، خاص طور پر کسی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوچنا بہت مشکل ہے، آپ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنے تعلقات کی کہانیاں شیئر کررہا ہے اور آپ پریشان ہوجاتے ہیں کہ آپ کسی پر بھروسہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اور آپ کو کیسے کسی پر یقین ہوسکتا ہے؟۔ایک سوال کے جواب میں ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ دوپٹہ ہمارے پشتون ثقافت کی

پہچان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلق کہاں سے ہے، یہ ہمارے لئے پشتونوں کی ثقافتی علامت ہے لہذا یہ نمائندگی کرتا ہے کہ میں کہاں سے آئی ہوں، مسلمان لڑکیاں یا پشتون لڑکیاں یا پاکستانی لڑکیاں، جب ہم اپنے روایتی لباس پہنتی ہیں تو ہمیں مظلوم یا بے آواز یا مردوں کی سرپرستی کے تحت زندگی گزارنے والا سمجھا جاتا ہے لیکن میں ہر ایک کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ثقافت کے اندر اپنی آواز بن سکتے ہیں اور آپ کو اپنی ثقافت میں مساوات مل سکتی ہے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…