کوئٹہ/زیارت (این این آئی) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک مشکل وقت سے نکل رہا ہے ،جب اگلی حکومت ہماری آئیگی تو پاکستان اور تیزی سے ترقی کریگا، ہماری حکومت آتے ہی مخالفین نے ناکامی کا شور مچایا ، شرح نمو 4 فیصد سے زائد ہوگئی تو اپوزیشن مانتی نہیں اور کہہ رہی ہے نمبرز ٹھیک نہیں، اب اپوزیشن بہت مشکل میں ہے، ان پر
ترس بھی آتا ہے، یہ لوگ حکومت گرانے کی تاریخیں دیتے رہتے ہیں، مجھے تو اپوزیشن کی فکر ہے خود ایک ساتھ رہیں گے یا نہیں، بلوچستان میں پیسہ خرچ کیے جانے کے باوجود دہشتگرد حملے افسوسناک ہیں ، ہم نے مشکل وقت اور مشکل حالات کے باوجود بلوچستان کو جنتا بھی ہو سکے، فنڈز دئیے ہیں، بلوچستان اور خیبر پختون کی حکومتی کہتی ہیں آپ بلوچستان پر زیادہ مہربان ہیں ،ماضی میں بلوچستان پر جو پیسہ خرچ کیا جانا چاہتا تھا، وہ بھی صحیح طریقے سے خرچ نہیں کیا گیا اور نہ ہی توجہ دی گئی ،زیارت کے پورے علاقے میں سیاحت میں اضافہ سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے، غربت کم ہو سکتی ہے،بلوچستان کے لوگوں کو بھی ہیلتھ کارڈ ملنا چاہیے،صوبے کو 700ارب روپے کا سب سے بڑا پیکج دیا ہے ، ایک اور سڑکوں کا پیکج دے رہے ہیں ،بلوچستان کیلئے کوشش کرتے رہیں گے۔ زیارت کے دورے کے موقع پر قائد اعظم ریزیڈنسی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قائد اعظم
نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں اس مقام پر گزارے اور میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ یہاں جاؤں گا۔انہوں نے کہاکہ میں سارا پاکستان گھوما ہوں تاہم جس طرح سے ہیلی کاپٹر سے زیارت کا جائزہ لیا ہے، ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا اور یہاں پر موجود چار سے پانچ ہزار سال پرانا جنگل دنیا کا اثاثہ ہے۔وزیر اعظم نے شہید ہونے والے ایف سی اہلکاروں کے لیے
دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اتحادی حکومت نے بلوچستان پر خاص توجہ دی اور یہاں اس طرح کا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں کے حملے افسوسناک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے مشکل وقت میں مشکل حالات کے باوجود بلوچستان کو جنتا بھی ہو سکے، انہیں فنڈز دیے ہیں اور مجھے خیبر پختونخوا
اور پنجاب حکومتیں کہتی ہیں کہ آپ بلوچستان پر بہت زیادہ مہربان ہو گئے ہیں تاہم اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بلوچستان کو واقعی نظر انداز کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان پر جو پیسہ خرچ کیا جانا چاہتا تھا، وہ بھی صحیح طریقے سے خرچ نہیں کیا گیا اور نہ ہی توجہ دی گئی جبکہ جو پیسہ دیا بھی گیا، وہ بھی صحیح معنوں میں خرچ نہیں ہوا، وہ پیسہ
صحیح معنوں میں خرچ ہو جاتا تو بلوچستان کے حالات بہت بہتر ہونے تھے۔عمران خان نے کہا کہ خوشخبری یہ ہے کہ ملک مشکل وقت سے نکل رہا ہے ، ہمارے مخالفین نے پہلے سے شور مچا دیا تھا کہ حکومتی ناکام ہو گئی، وہ چاہتے تھے کہ حکومت ناکام ہو جائے کیونکہ حکومت اگر اس معاشی بحران سے ملک کو نکال دیتی تو ان کی سیاسی دکانیں بند ہو جانی
تھیں لہٰذا ساری قوم کو دو ڈھائی سال انہوں نے کہا کہ پاکستان تباہ ہو گیا، معیشت تباہ ہو گئی اور غریبوں کا برا حال ہو گیا۔انہوں نے کہاکہ پچھلے سال حکومت 0.5فیصد سے اوپر اٹھ رہی تھی تاہم پچھلے ہفتے جو شرح نمو کے اعدادوشمار آئے ہیں اس کے مطابق تقریباً 4 فیصد نمو سے معیشت ترقی کررہی ہے اور ساری اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ یہ اعدادوشمار
ٹھیک نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اس لیے ترقی کریگا کیونکہ اللہ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمت دی ہے، ہمیں خود ہی نہیں پتہ کہ اللہ پاکستان پر کتنا مہربان ہے کیونکہ ہمارے جن حکمرانوں گھر، چھٹیاں عیدیں اور علاج بھی باہر ہیں، انہیں کیا پتہ کہ اللہ نے اس ملک کو کتنا نوازا ہے۔ انہوں نے کہاکہ زیارت کے پورے علاقے میں سیاحت میں اضافہ ہو سکتا ہے
جس سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے، غربت کم ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پشاور میں 2013 میں جب ہماری حکومت آئی تو ہت برا حال تھا تاہم اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کے مطابق 2013 سے 2018 کے دوران سب سے تیزی سے غربت خیبر پختونخوا میں کم ہوئی۔وزیراعظم نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں
انسانوں، ان کی تعلیم اور صحت پر سب سے زیادہ خرچ کیا گیا جس کی ویک بڑی وجہ سیاحت تھی، ہم نے پوری طرح سے سیاحت کو صوبے میں بہتر بنایا کیونکہ اس سے مقامی لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جمال خان آلیانی کو کہا کہ جس طرح خیبر پختونخوا اور پنجاب کے لوگوں کو ہیلتھ کارڈ دیا گیا، بالکل اسی طرح بلوچستان
کے لوگوں کو بھی ہیلتھ کارڈ ملنا چاہیے۔وزیر اعظم نے ایک بار پھر کہاکہ ماضی میں بلوچستان کو نطرانداز کیا گیا اور اسی لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی پوری طرح مدد کریں، بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑا علاقہ ہے اور یہاں کنیکٹیویٹی بہت مہنگی ہے، سڑکوں کو ای کدوسرے ملانے میں بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی صحیح معنوں
میں ترقی اسی وقت ہو گی جب سارے ملک کی ترقی ہو، یہاں چھوٹے چھوٹے علاقوں کی ترقی ہوتی ہے لیکن باقی ملک پیچھے رہ جاتا ہے اور اسی وجہ سے بلوچستان بھی پیشھے رہ گیا ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو علاقے پیچھے رہ گئے ہیں ان پر ہم خاص توجہ دے رہے ہیں، ہم قبائلی علاقوں سے شروع کررہے ہیں، اس کے بعد بلوچستان
، پنجاب کے مغربی علاقے اور اندرون سندھ بھی مدد کریں کیونکہ اندرون سندھ کیعلاقے بھی پیچھے رہ گئے ہیں، پہلی کوشش ہے کہ جو علاقے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی ترقی پر کام کیا جائے اور دوسری چیز یہ کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں، جو کمزور طبقہ ہے، ان کی ترقی بھی یقینی بنائیں۔انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان آتا رہوں گا، ہم نے صوبے کو 700ارب
روپے کا سب سے بڑا پیکج دیا ہے اور ایک اور سڑکوں کا پیکج دے رہے ہیں اور بلوچستان کے لیے کوشش کرتے رہیں گےبادشاہ نہیں وزیر اعظم ہوں، مجھے وزیر خزانہ سے بات کرنا پڑتی ہے، دیکھنا پڑتا ہے کہ کتنا پیسہ ہے، پہلے ہی کے پی اور پنجاب شور مچا رہے ہیں کہ بلوچستان کو بہت پیسہ دے دیا۔ ماضی میں جس طرح بادشاہ اشرفیوں کی تھیلیاں
پھینکتے تھے اس طرح حکمران اعلانات تھے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا، یہ ہمارا فرض تھا کہ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود اس کی پوری طرح مدد کریں، بلوچستان ایک بڑا علاقہ ہے، یہاں رابطے کے ذرائع مہنگے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے پبلک پرائیویٹ شراکت داری بھی دیگر علاقوں کی طرح یہاں ممکن نہیں۔