وزیرآباد(آن لائن) پاکستان پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ مضبوط مرکز ملک کو صحیح سمت میں نہیں چلا سکتا۔مرضی کے سیاستدان لائینگے تو نتیجہ ناکامی اور کمزوری کی صورت میں نکلے گا۔ فیصلے کروانے والے اب نئے فیصلے کرینگے۔عدلیہ، فوج اور بیورو کریسی نیب کے نظام سے باہر ہیں۔صرف دو جماعتوں کا احتساب ہو رہا ہے۔ غیر جمہوری عمل کی پیداوارحکومت عوام کے درد کو نہیں سمجھ سکتی۔
پاپولر ازم کو آگے لاکر نیا تجربہ کیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کے ساڑھے پانچ پوائنٹ تسلیم کر لئے تھے۔73کا آئین پوری طرح بحال نہیں ہے۔مظفر آباد کا جلسہ ہمارا ہے کشمیر کا نہیں۔وہ یہاں نائب صدر پنجاب اعجاز احمد سماں کی رہائشگاہ پر گوجرانوالا ڈویژن کے پارٹی عہدیداران کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس کے ایجنڈے میں جلسہ مظفرآباد،جلسہ راولپنڈی اور گوجرانوالا ڈویژن میں بلاول بھٹو کے جلسوں کے پروگرام شامل تھے۔ اس موقع پر سیکریٹری جنرل پنجاب چوہدری منظور احمد، نائب صدر چوہدری اسلم گل، ڈپٹی سیکریٹری جنرل عثمان ملک، ڈویژنل صدر دیوان شمیم، ڈویژنل جنرل سکریٹری طاہر ملک، صدر ضلع سیالکوٹ چوہدری اظہر، صدر گجرات ضیاء محی الدین،صدر حافظ آباد محمد یاسین سندھو، نارووال سے حسنین شاہ، ضلعی صدر منڈی بہاء الدین آصف بھاگٹ، یوتھ ونگ پنجاب کے زوہیب بٹ، ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات پنجاب بیرسٹر عامر حسن، جنرل سیکریٹری کلچرل ونگ پنجاب ڈاکٹر خالد جاوید جان، میاں اظہر حسن ڈار، خواجہ اویس، ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب، جنرل سیکریٹری گوجرانوالا ڈویژن ارشاد اللہ سندھوبھی موجود تھے۔ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ یوم تاسیس پر شرکاء کی حاضری لگائینگے اور ہر کارکن کا اس کی کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لینگے اورکام کرنے والوں کو جائز مقام دینگے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد جھرلو اور دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی
حکومت سے جمہوری عمل کا آغاز ہوا جس کی بلاول بھٹو نے حمائت کا اعلان کیا کہ عمران خان اپنا ایجنڈا پورا کریں اور وعدوں کے مطابق عوام کو ریلیف دیں۔ پیپلز پارٹی نے تمام بے انصافیوں کو نظرانداز کر دیا۔ عمران خان جھوٹ بول کر آئے۔ان کا آنا سلیکٹرکا فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پیپلز پارٹی کا مذاق اڑایا اس کے باوجود احتسابی عمل میں تعاون کرینگے لیکن امتیازی پالیسی منظور نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جو غیر جمہوری
عمل کی پیداوار ہو تے ہیں انہیں عوام کا درد نہیں ہو تا۔ ملکی اداروں نے بہت تجربات کئے۔جو کام آئین اور قانون کرنے کی اجازت نہیں دیتا وہ بھی کیا گیا۔ گملوں میں سیاسی پودے اگائے گئے،مارشل لاء لگائے گئے۔سیاستدان اپنی مرضی کے لائے گئے جس کا نتیجہ ناکامی اور کمزوری کی صورت میں سامنے آیا۔نیا تجربہ پاپولر ازم کا آگے لاکر کیا گیا۔ عمران خان کی شہرت کو استعمال کیا گیا جو جعلی تھا اس لئے فیل ہو گیا۔عام آدمی، غریب آدمی اور
صنعتکار سب مشکل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جو مشورہ دیا اسے مخالفین کے خیالات قرار دے کر مسترد کیا گیا۔ اب تو ان کے اپنے ساتھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔عمران خان نے فاشزم کو فروغ دیا۔پرویز الٰہی، ایم کیو ایم اور نو تشکیل شدہ جی ڈی اے والے سب کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت مزید تین چار ماہ اسی طرح چلی تو ملک چلا نے کے لئے کوئی نہیں رہے گا۔انہوں نے کہا کہ لیڈروں کی نقلیں اتار کر کوئی بڑا نہیں ہو
جاتا۔چھوٹے لوگ بڑوں کی نقلیں اتارتے ہیں۔ فیصلے کرنے والے اب نئے فیصلے کرینگے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا بھی بدلنے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ریاستی قوتوں کے تعاون سے احتساب کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ نیب کا نظام جعلی ہے۔عدلیہ، فوج اور بیورو کریسی نیب کے نظام سے باہر ہیں۔ جو عمران خان کے ساتھ بیٹھا وہ پاک ہو گیا۔صرف دو جماعتوں کا احتساب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کو قید تنہائی
میں رکھا ہوا ہے اور ان سے دوتین سے زیادہ قریبی افراد کے علاوہ کوئی نہیں مل سکتا جبکہ نواز شریف کی پوری جماعت ان سے جیل میں ملتی رہی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ آصف علی زرداری کے معالجین کو میڈیکل بورڈ میں شامل کیا جائے۔ مریم نواز کو ضمانت دی گئی لیکن فریال تالپور کو ایسی سہولت نہیں دی گئی ہے جو امتیازی پالیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ مضبوط مرکز ملک کوصحیح نہیں چلا سکتا اس لئے 18ویں ترمیم ضروری ہے تاکہ
اختیارات تقسیم ہوں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن میں رہ کر اپناکردار ادا کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مظفرآباد کا جلسہ ہمارا ہے نہ کہ کشمیر کا۔27نومبر کے جلسے کے بعد کارکنوں، لیڈروں اور خود ان کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے گااور متحرک کارکنوں کو ان کا جائز مقام دیا جائے گا۔ان سے سوال کیا گیاکہ ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے سے بین الاقوامی سطح پر سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ملک میں سیاسی
استحکام لانا ہر سیاسی جماعت کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔کیا یہ سمجھا جائے کہ سیاسی ادارہ ناکام ہو چکا ہے؟انہوں نے گول مول جواب دیا کہ 73کا آئین پوری طرح بحال نہیں ہے۔پیپلز پارٹی آئین کو پوری طرح بحال کرے گی توسیاسی کلچر بحال ہوگا۔ ایک اور سوال کیا گیا کہ مجیب الرحمان کے 6نکات کو ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کر دیا تھا۔مجیب الرحمان کے 6نکات اور 18ویں ترمیم میں کیا فرق ہے؟سوال کے جواب میں قمر زمان کائرہ نے کہ بھٹو نے شیخ مجیب کے ساڑھے پانچ پوائنٹ کو تسلیم کرلیا۔