اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس معاملہ پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا پرائیویٹ شکایت پر تحقیقات کیلئے پوری حکومتی مشینری کو کھوج لگانے کیلئے لگایا جاسکتا ہے۔ منگل کو جسٹس عمر عطاء بندیال کی سراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل بابر ستار نے کہا کہ صدر مملکت کے
سامنے ٹیکس کے حوالے سے کوئی مواد تھا ہی نہیں جس پر وہ اپنی رائے قائم کرتے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے معاملہ ٹیکس کی ادائیگی کا نہیں، ریفرنس میں کوڈ آف کنڈیکٹ کا معاملہ اس بنیاد پر اٹھایا گیا ہے کہ جج صاحب نے اپنی جائیداد ظاہر نہیں کی، آپ نے جج کے سیول رائیٹس کی جو بات کی تھی وہ منیر ملک کے دلائل سے متضاد ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم دیگر دلائل کے حوالے سے منیر ملک کے دلائل پر انحصار کریں گے، بابر ستار کے دلائل پر صرف ٹیکس کی حد تک غور کیا جائیگا، اس لیے منیر ملک کے دلائل کا بابر ستار کے دلائل سے موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آئین اور قانون کے حوالے سے آپ اپنا نقطہ بیان کر چکے ہیں، اب آپ ٹیکس کے معاملات پر اپنے دلائل آگے بڑھائیں۔بابر ستار نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت انکم ٹیکس آفسران کے مشورہ دینے کا اختیار نہیں دیتا،11 مارچ 1999 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہوئے، ایف بی آر کے اندرونی طریقہ کار کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کوئی اتھارٹی ٹیکس معلومات نہیں دیکھ سکتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پبلک سروس میں،نہیں انکی مرلومات شیئر نہیں کی جا سکتی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ جب سارا مواد صدر کے پاس گیا تو ان کو مواد حاصل کرنے کے قانونی طریقہ کار کو دیکھنا چاہیے تھا، شاید تکنیکی بنیادوں پر آپ درست کہہ رہے ہوں لیکن یہ نقاط بہت چھوٹے ایشوز ہیں۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے ایڈووکیٹ بابر ستار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بابر ستار صاحب کمرہ عدالت میں لگی گھڑی بھی کچھ کہہ رہی ہے، آپ کے دلائل غور طلب ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال آپ ٹیکس قوانین سے متعلق اپنے دلائل مکمل کریں بدھ کو مقدمے کی سماعت پر بیس اوور والے میچ کی طرح دلائل دیں، بابر ستار نے کہا کہ اگر مجھ سے سوالات نہ کیے گئے تو کل تک دلائل مکمل کر لوں گا۔کیس کی سماعت بدھ کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔