اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو گزشتہ روز پاکستان کے دورے پر آئے اور انہوں نے اپنے 27 رکنی وفد کے ساتھ یہاں ساڑھے پانچ گھنٹے گزارے، اس دوران انہوں نے وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف اور وزیر خارجہ سے ملاقات بھی کی، اس ملاقات کے حوالے سے مختلف تجزیے کیے جا رہے ہیں، اس موقع پر معروف تجزیہ نگار حبیب اکرم نے کہا کہ میں سیاست میں بطور طالب علم جن چیزوں کو نہیں سمجھ پایا وہ یہ ہے کہ آخر وہ کون سا فیصلہ سازی کا عمل ہے
جس سے گزرتے ہوئے ہم ایک موقف اپناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ جب امریکہ سے کوئی پاکستان آئے گا تو وہ ڈو مورکا مطالبہ لے کر آئے گا اور اس ڈو مور کا مطلب بھی سب ہی سمجھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ لیکن ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ ہمارے نو مور کا کیا مطلب ہے، معروف تجزیہ نگار نے کہا کہ ہمیں اپنی ریاست میں کوئی ایک جگہ بھی ایسی میسر نہیں ہے جہاں پر جا کر ہم اس کا مطلب معلوم کر سکیں، انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ سے بات کریں تو وہ لمبی تقریر کر دیں گے جس میں موٹے موٹے الفاظ کا استعمال ہو گا لیکن یہ ملک ہمارا بھی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی ہر بات کا علم ہونا چاہئے لیکن وزارت خارجہ کے افسران سے ملیں تو انہیں سب معلوم ہو گا لیکن یہ معلوم نہیں ہو گا کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔ معروف تجزیہ نگار حبیب اکرم نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ عمران خان سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ان کے پاس ایک ون لائنر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم آپ کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے ، دوسری جانب اسی متعلق سعد رسول نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ کی امداد نہیں چاہیے، افغانستان میں امریکہ کی جنگ نہیں لڑیں گے، ڈیورنڈ لائن پر جنگلہ لگائیں گے تا کہ یہ ان الزامات کا خاتمہ ہو کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں پاکستان ملوث ہے۔