اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ارکان سینیٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شان رسالتؐ میں گستاخی کے خلاف بین الاقوامی فورم سے رجوع کرنے سے پہلے ملک کے اندرہونے والے توہین رسالت کے خلاف کارروائی کی جائے،حکومت ٹھوس اقدام اٹھاتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے،اگر حکومت ملک کے اندر توہین رسالتؐ کی مواد کو نہیں روک سکتے تو بین الاقوامی دنیا
سے گریہ کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔منگل کو سینیٹ میں ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے انٹرنیٹ پررسول اللہؐ کی شان میں توہین آمیزمواد شیئر کرنے کے حوالے سے تحریک التوء پیش کی۔اس موقع پر محمد علی سیف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ویب سائٹس،واٹس ایپ اور فیس بک گروپس پر علمی بحث کے نام پر توہین رسالت پر مبنی مواد شیئر کی جارہی ہے،پوری لابی اس کیلئے سرگرم ہیں،رسول اللہؐ کی شان میں گستاخی خلاف انسانیت ہے،کسی صورت برداشت نہیں،جہاں سے ذات رسالتؐ کا آغاز ہوتا ہے وہاں سے اظہاررائے کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کرے،ایف آئی اے ان لوگوں کا پتہ کریں جو منظم سازش کے ذریعے انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد شیئر کرتے ہیں،وہ ادارے جو اپنے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کرتے وہ شان رسالتؐ میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف خاموش کیوں ہیں۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہحد تو یہ ہے کہ پی ٹی اے کے پاس تو توہین آمیز مواد کو روکنے والا سسٹم ہی موجود نہ تھا،پی ٹی اے کو انٹرنیٹ پر ہر قسم کی توہین آمیز مواد کو روکنے کیلئے جس سسٹم کی ضرورت ہے اس کی قیمت 25 ملین ڈالر ہے، سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے حکومت سے پی ٹی اے کو فوری طور پر 25 ملین جاری کرنے کی سفارش کی تھی، 25 ملین شان رسالت سے
زیادہ نہیں،اسلامک ٹیرازام کی اصطلاح گڑھی ہوئی ہے،یورپ اور امریکہ میں آئے روز لوگوں قتل کرنے والے کیا مسلمان ہیں؟او آئی سی سے توقعات نہیں، او آئی سی کچھ کر سکتی تو مشرق وسطیٰ میں ہنگامے ختم ہو جاتے۔ رحمن ملک نے کہا کہ جس طرح توہین رسالت کیلئے انٹرنیٹ کو استعمال کیا جارہا ہے، اسی طرح الیکشن کے دوران بھی انٹرنیٹ پر سیاستدانوں کی توہین آمیز تصویری شیئر کی گئیں،
سیاستدانوں کی تصاویر کو گدھوں، کتوں اور دیگر جانوروں پر آویزاں کی گئیں،اس کے بارے میں جب ایف آئی اے اور پی ٹی اے سے تفصیلات طلب کی گئیں تو حیران ہوا کہ کس قدر دونوں اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہیں،جس کے بعد کمیٹی نے ایف آئی اے کا ایک نمائندہ پی ٹی اے کے پاس اور پی ٹی اے کے نمائندے کو ایف آئی اے کے متعلقہ شعبے میں مقرر کرنے کی سفارش کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محمد اعظم خان سواتی نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں پوری انسانیت کا ہے،ملک کے اندر سوشل میڈیا بے لگام ہو چکا ، سخت نظر رکھنے کی ضرورت ہے،مسلمانوں کو متحد ہونا پڑے گا، اس مسئلہ کو اٹھانے کے بہترین فورمز او آئی سی، اقوام متحدہ ہیں ،ان فورمز پر ان ممالک کے عزائم کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہیں۔جماعت اسلامی کے
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ شان رسالتؐ میں گستاخی کرنے والے دہشتگرد ہیں،جو رسول اللہؐ کے خاکے بناتے ہیں ان کے خاک اڑ جائیں گے،مغرب نے اس وقت ہمارے اوپر معاشی،عسکری اور ثقافتی جنگ مسلط کررکھی ہے،اقوام متحدہ میں جانے کیلئے پہلی شرط اپنے ملک میں گستاخی کرنے والوں کو کیفر دار پہنچانا ہوگا۔ مشتاق احمد نے کہا کہ توہین کرنے والے ممالک کی کمپنیاں
ہمارے ملک سے اربوں ڈالر اپنے ممالک لے جاتے ہیں، حکومت فوری طور پر ان کمپنیوں کو بند کرکے اپنے لوگوں کو سرمایہ کاری کا موقع دیں،ملک کے اندر مجرموں کو گرفت میں نہ لانا ریاست کی ناکامی ہے۔سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ اگر ہمارے ہی ادارے کام نہیں کریں گے تو کسی اور سے کیا گریہ،ہم رسول اللہؐ پر مرنے ،مٹنے کیلئے تو تیار ہوتے ہیں مگر ان کے ف
رمان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں،ہم خود انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں، حکومت جرات کے ساتھ ذمہ دار ممالک سے جواب طلب کرے۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ اس حوالے سے قانون تو موجود ہیں مگر نفاذ میں مشکلات ہیں،حیرانگی ہوتی ہے کہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے کس قدر بے بس ہیں۔سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ ملک کے اندر اگر توہین آمیز مواد کو روکے تو باہر کی نیا سے بات کر سکیں گے،ملکی اداروں کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہونی چاہیے تو توہین آمیز مواد کو روک سکے۔