نیویارک(این این آئی)سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ خلا میں انتہائی فاصلے پر واقع کہکشاں سے بھیجے جانے والے سگنل کینیڈا کی ایک ٹیلی سکوپ کو موصول ہوئے ہیں لیکن ان ریڈیائی لہروں کے بارے میں تفصیل اور ان کے اصل مقام کے بارے میں ابھی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ماہرین نے کہاکہ ان ریڈیو لہروں سے ملنے والے سگنلز ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے آنے والی ان لہروں کو جس رفتار سے بھیجا گیا تھا وہ بہت غیر معمولی تھا۔ماضی میں اس نوعیت کا صرف ایک اور واقع رپورٹ کیا گیا ہے لیکن وہ مختلف ٹیلی سکوپ کے ذریعے آیا تھا۔یونی ورسٹی آف برٹش کولمبیا سے منسلک سائنسدان انگرڈ سٹئیرز نے بتایا کہ اس پیغام سے یہ لگتا ہے کہ شاید وہاں کوئی اور بھی موجود ہو۔ اور ایسا اگر بار بار ہو اور ہمارے پاس اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع ہوں تو ہم شاید یہ گتھی سلجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ یہ کیا ہے اور یہ شروع کیسے ہوئی ہے۔گذشتہ سال کام کا آغاز کرنے والی اس ٹیلی سکوپ نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی یہ ریڈیو سگنل موصول کیے تھے اور اب ان کے بارے میں تحقیق موقر سائنسی جریدے ‘نیچر’ میں شائع ہوئی ہے۔فاسٹ ریڈیو برسٹ (ایف آر بی) کے نام سے موسوب یہ ریڈیو سگنل درحقیقت ایسی ریڈیائی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں گمان ہے کہ وہ کائنات کے دوسرے سرے سے آ رہی ہیں۔سائنسدانوں نے اب تک اس نوعیت کے 60 ایف آر بی کا سراغ لگایا ہے جو ایک بار سگنل دیتے ہیں جبکہ دو سگنل ایسے تھے جو بار بار آئے تھے۔ان ایف آر بی کی حقیقت کے بارے میں مختلف اندازے ہیں کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ ایک ایسا نیوٹرون ستارہ جس کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھوم رہا ہوتا ہے۔لیکن دوسری جانب قلیل تعداد میں کچھ ایسے بھی سائنسدان ہیں جن کا خیال ہے یہ سگنل کسی خلائی مخلوق کے خلائی جہاز سے آ رہا ہے۔