چین(مانیٹرنگ ڈیسک) چین نے دنیا کی پہلی خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی ٹرین کی تیاری میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو کہ تیز ترین بھی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر چین میں بہت جلد ایسی ٹرینیں ٹریک پر نطر آئیں گی جو کہ 350 کلو میٹر فی گھنٹہ (217 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے دوڑ سکیں گی اور وہ اپنا سفر ڈرائیور لیس کریں گی۔ جیسا آپ کو علم ہوگا کہ کراچی
اور لاہور کے درمیان فاصلہ 790 میل سے کچھ زیادہ ہے اور یہ تیز ترین چینی بلٹ ٹرین اتنا فاصلہ ساڑھے 3 گھنٹے میں طے کرے گی۔ ان خودکار بلٹ ٹرینوں کی آزمائش 2018 میں چائنا ریلوے کارپوریشن (سی آر سی) کی جانب سے بیجنگ اور شینیانگ کے درمیان کی اور یہ تمام حفاظتی ٹیسٹوں میں کامیاب قرار پائی۔ چائنا اکیڈمی آف ریلورے سائنسز کے مطابق ‘ یہ بلٹ ٹرین اپنا سفر خودکار طور پر کرسکے گی اور ایک بٹن کو دبا کر یہ طے شدہ وقت کے مطابق مختلف اسٹیشنز پر رکنے کے ساتھ چلے گی’۔ فی الحال ان ٹرینوں کی آزمائش کے دوران ایک ڈرائیور کو بھی رکھا جاتا ہے مگر بہت جلد یہ خودکار ٹرین آپریشن انسانی ڈرائیورز کی جگہ لے گا۔ ان خودکار ٹرینوں کو فیوکسنگ کا نام دیا گیا ہے ، اس نام سے پہلے ہی دنیا کی تیز ترین ٹرین (350 سے 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار والی) بیجنگ اور شنگھائی کے درمیان 2017 سے چل رہی ہے۔ پیپلز ڈیلی چائنا کے مطابق یہ خودکار ٹرینیں بیجنگ اور ژانگیاکوو کے درمیان چلائی جائیں گی۔ چائنا ریلوے کے جنرل منیجر کے مطابق یہ نیا ٹرین سسٹم 2022 تک آپریشن شروع کردے گا کیونکہ 2022 میں بیجنگ اور ژانگیاکوو میں ونٹراولمپکس کا انعقاد ہورہا ہے، جس میں لوگوں کو 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی خودکار ٹرین میں سفر ک یسہولت فراہم کی جائے گی۔ یہ ٹرینیں متعدد نئی ٹیکنالوجیز جیسے کلاﺅڈ کمپیوٹنگ وغیرہ سے لیس ہوگی جبکہ ریل سسٹم انفراسٹرکچر میں چہرے کی شناخت کا سسٹم بھی ہوگا تاکہ مسافروں کو چیک ان میں آسانی ہو، روبوٹ سامان اٹھائیں گے جبکہ دیگر اے آئی سروسز بھی دستیاب ہوں گی۔ چین میں اب تک تیز ترین ٹرینوں کے لیے 30 ہزار کلومیٹر کے قریب ٹریک بچھایا جاچکا ہے اور 2019 میں یہ ملک مزید 3200 کلومیٹر رقبے پر یہ ٹریک بچھانا چاہتا ہے۔ چین نے ان ٹریکس پر چلنے والی ٹرینوں کے لیے کھربوں ڈالرز کا خرچہ کیا ہے۔