اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)تقریباً پچاس سال پہلے بارہ امریکی خلا بازچاند پر گئے تھے۔اس کے بعد ایک بھی نہیں گیا۔اُس وقت اِس کارنامے کوانسانیت کی اہم ترین کامیابی قرار دیا گیا۔چاند پر بستیاں بسانے کے خواب دکھائے اور سنائے گئے۔اسے انسان کی سب سےبڑی چھلانگ کہاگیا۔کچھ امریکی اخباروں نے تواسے امریکہ کی ایک نئی ا سٹیٹ کا درجہ بھی دے دیا تھا۔مگر رفتہ رفتہ چاند کے
آباد ہونے کی امید کم ہوتی گئی۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں جب روس اور امریکہ کے درمیان چاند پر پہنچنے اور وہاں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی جو دوڑ شروع ہوئی تھی وہ گزشتہ دہائیوں میں تھم سی گئی ہے۔لوگوں کا ’’ چاند گردی‘‘ پراعتماد بھی متزلزل ہونے لگا۔اہل ِ دانش کے ایک طبقے نے کہا کہ امریکی چاند پرنہیں گئے،یہ سب زمین پر کسی ہالی وڈ فلم کی طرح فلمایا گیا تھا۔ناسا کے اِس دعویٰ پر کچھ اِس طرح کے اعتراضات کئے گئے کہ ’’چاند پر ہوا نہیں مگر ویڈیوز میں امریکی پرچم لہراتا دکھائی دیتا ہے ‘‘۔’’آسمان میں ستارے نظر نہیں آرہے۔ ‘‘۔ ’’تصاویر میں سایوں کی مختلف سمتیں نظر آ رہی ہیں ‘‘۔’’چاند سے واپس آتی چاند گاڑی کی تصویر کس نے لی؟کیمرے تو خلا بازوں کے پاس تھے‘‘۔ناسا والوں نے اپنے طور پر ہر سوال کا جواب دینے کی بھرپور سعی کی مگر نکتہ چیں حضرات کی تشفی نہ ہو سکی۔سو یہ بحث جاری ہے کہ کیا انسان نے چاند پر پائوں رکھا ہے یا نہیں۔ دونوں طرف سے دلائل بڑے مضبوط ہیں سو یقین سےکوئی بات نہیں کی جا سکتی مگر اب پہلی بار یہ فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ کیا امریکی دعویٰ درست تھا یا دنیا بھر کے لوگوں کو بے وقوف بنایا گیا تھا۔کیونکہ چین کے خلائی جہاز ’چنگ ای – 4‘ نے چاند کے ’تاریک حصے‘ کی تصاویر زمین پر بھیجیں۔نجی ٹی وی کی ویب سائٹ رپورٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں یہ
پہلا موقع ہے کہ جب کسی خلائی جہاز نے اس حصے پہ لینڈنگ کی ہے جسے ’ڈارک سائیڈ‘ قرار دیا جاتا ہے اورجو زمین سے کبھی بھی نظر نہیں آتا ہے۔ چین کے سائنسدانوں نے اسے ’خلائی تاریخ‘ کا ایک نیا باب قرار دیا ہے۔یہ بات تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اپالو کی لینڈنگ کے تقریباً 50 سال بعد چین کے خلائی جہاز نے چاند پر لینڈنگ کی ہے۔عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق
چینی خلائی جہاز چنگ ای – 4 ایک خود کار گاڑی (Rover) کو لے کر گیا ہے۔ اس مشن کا بنیادی مقصد چاند کے ان اجبنی حصوں کا معائنہ کرنا ہے جو اب تک انسانی دسترس سے ’محفوظ‘ رہے ہیں۔پاکستانی وقت کے مطابق جمعرات کی صبح دس بجے کے قریب جب چین کے خالی جہاز نے چاند کی ڈارک سائیڈ پر لینڈنگ کی تو اس نے پہلے ایک تصویر زمین پر بھیجی اور کچھ ہی دیر بعد دو
مزید تصاویر زمین پر بھیج دیں۔چین نے 2013 میں اپنا پہلا خلائی جہاز چنگ ای-3 چاند پر بھیجا تھا جب کہ چنگ ای-4 آٹھ دسمبر کو زمین سے چاند کے سفر پر روانہ ہوا تھا۔ چاند کے سفر پر بھیجے گئے خلائی جہاز کا زمین سے رابطہ برقرار رکھنے کے لیے مئی میں ایک سیٹیلائٹ بھی بھیجا گیا تھا۔سیٹیلائٹ کے متعلق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چاند کی ڈارک سائیڈ سے سگنلز براہ راست زمین پر
نہیں پہنچ پاتے ہیں اس لیے سیٹیلائٹ کی ضرورت پیش آئی تھی جو خلائی جہاز کے سگنلز وصول کرکے انہیں زمین پر بھیجنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔رپورٹ کے مطابق سائنسدان ’تاریک حصے‘ کے متعلق کہتے ہیں کہ بیشک! چاند زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن تیکنیکی اعتبار اس کا صرف ایک ہی حصہ زمین کے باسیوں کو دکھائی دیتا ہے اور دوسرا حصہ ہمیشہ ہی انسانی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔
اسی اوجھل رہنے والے حصے کو ڈارک سائیڈ کہا جاتا ہے جو عقبی حصہ بھی کہلاتا ہے۔ چین کے سائنسدان اس مشن کے ذریعے چاند کی مٹی کا بھی تجزیہ اور معائنہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔چین کے سائنسدانوں کے عزائم کے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ چینی سائنسدان چاند پر آلو اگانے کا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔