امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک) فیس بک 2018 کا اختتام بھی اسی طرح کرنے والی ہے جس طرح اس کا آغاز کیا تھا، یعنی صارفین اور ماہرین کی تنقید، جس کی وجہ ان کے اعتماد اور ذاتی معلومات کا غلط استعمال ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کو علم نہ ہو یا یاد نہ ہو مگر 2018 وہ سال ہے جسے سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ کے بانی مارک زکربرگ نے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے تمام مسائل حل کرنے کا سال قرار دیا تھا۔
مگر انہوں نے خود تسلیم کیا تھا کہ اس کے کچھ مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ منگل کو نیویارک ٹائمز نے چونکا دینے والا انکشاف کیا تھا کہ فیس بک صارفین کے ڈیٹا کو متعدد شراکت دار کمپنیوں سے شیئر کرتی ہے۔ سال کا آغاز 4 جنوری کو مارک زکربرگ نے اپنا سالانہ چیلنج فیس بک کو درست کرنا قرار دیا تھا کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا نیٹ ورک متعدد سیکیورٹی خامیوں اور پرائیویسی کے باعث حملوں کی زد میں تھا، خصوصاً 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت اور صارفین کے وقت کا ضیاع زیادہ توجہ کا مرکز تھے۔ مگر کوششوں کا انجام یہ ہوا کہ مارک زکربرگ نے بیان دیا کہ مسائل کے حل کے لیے کم از کم 3 برس درکار ہوں گے اور سال کے اختتام پر انہوں نے اعتراف کیا کہ فیس بک کے مسائل کو دیکھا تو جاسکتا ہے مگر حل نہیں کیا جاسکتا۔ مارچ: کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل یہ اسکینڈل دی گارڈین اور نیویارک ٹائمز کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا تھا جس میں انکشاف کیا گیا کہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی مشاورتی کمپنی کا تعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم سے جڑا ہوا ہے، جس نے کروڑوں فیس بک صارفین کے ڈیٹا کا غلط استعمال کیا۔ اس رپورٹ کے بعد فیس بک کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا مگر معاملہ اس وقت بدتر ہوگیا جب مارک زکربرگ اور کمپنی کی سی او او شیرل سینڈبرگ دنوں آخری وقت تک اس معاملے پر خاموش رہے۔ بتدریج فیس بک نے اس مسئلے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ توقعات سے بھی زیادہ بڑھا ہے، ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 5 کروڑ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں، بعد ازاں یہ تعداد 8 کروڑ 70 لاکھ تک جاپہنچی۔ فیس بک نے اس کے بعد ایک ٹول بنایا تاکہ لوگ جان سکیں کہ ان کے ڈیٹا تک رسائی ہوئی یا نہیں۔ فیس بک کے تمام مسائل میری غلطی ہے، مارک زکربرگ مارک زکربرگ
کو امریکی ایوان نمائندگان میں جاکر اس حوالے سے صفائی بھی دینا پڑی تھی۔ فیس بک میسنجر چیٹ اسکین کیے جانے کا انکشاف اپریل میں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ فیس بک میسنجر ایپ میں صارفین کی جانب سے ایک دوسرے کو بھیجے جانے والے پیغامات کے مواد کو اسکین کرتی ہے تاکہ کمپنی کے اصولوں کی خلاف ورزی پر انہیں بلاک کیا جاسکے۔ بعد ازاں فیس بک کے بانی
مارک زکربرگ نے خود میسنجر کے تمام مواد کو اسکین کرنے کی تصدیق ایک انٹرویو کے دوران کی۔ انہوں نے ووکس کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ فیس بک کی جانب سے میانمار میں میسنجر کے پرائیویٹ پیغامات میں روہینگیا مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے مواد کو اسکین اور ہٹایا گیا۔ اس بیان کے بعد یہ خدشہ سامنے آیا کہ فیس بک کی جانب سے تمام میسنجر صارفین کے پیغامات کو اسکین جاتا ہے۔
جس کی تصدیق اب فیس بک کے ایک ترجمان نے کی۔ ترجمان کے مطابق ‘ جب فیس بک پر صارف کوئی تصویر بھیجتا ہے تو ہمارا آٹومیٹڈ سسٹم اسکین اپنی فوٹو میچنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کے استحصال کی تصاویر کو شناخت کرتی ہے یا جب کوئی لنک بھیجا جاتا ہے تو ہم میل وئیر یا وائرسز کے لیے اسے اسکین کرتے ہیں، کمپنی نے یہ ٹولز اس لیے بنائے ہیں۔
تاکہ فوری طور پر اپنے پلیٹ فارم پر برے رویے کو روک سکیں’۔ کمپنی کے مطابق میسجز کے اسکین سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اشتہارات کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ یہ لوگوں کو دوسروں کے استحصال، توہین یا دیگر معاملات سے روکنے کے لیے ہے۔ ڈیٹا ہیک معاملہ یہاں ہی ختم نہیں ہوا بلکہ فیس بک نے ستمبر میں اعتراف کیا کہ سوشل نیٹ ورک پر 5 کروڑ افراد ہیکنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس بار فیس بک کے ویو ایز فیچر کی کمزوری نے لوگوں کو ہیکرز کے لیے آسان شکار بنادیا جو فیچر سے جڑے کوڈ کی مدد سے ایسسز ٹوکنز چوری کرکے کسی کے اکاﺅنٹ کو ہیک کرسکتے تھے۔ اگرچہ ایسسز ٹوکنز پاس ورڈ نہیں مگر اس کی بدولت لوگ پاس ورڈ کے بغیر لاگ ان ہوسکتے ہیں۔ 2 ہفتے بعد فیس بک نے بتایا کہ 2 کروڑ 90 لاکھ افراد کے نام، ای میل ایڈریسز اور فون نمبر چوری کرلیے گئے ہیں۔
جبکہ ایک کروڑ 40 چالیس افراد کی تاریخ پیدائش، آبائی علاقے اور دفتری معلومات بھی ہیکرز تک پہنچ گئی ہے۔ بعد ازاں فیس بک نے بتایا کہ ایک ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنی اس سیکیورٹی حملے کے پیچھے ہے اور یہ ہیکرز کسی ریاست کے لیے کام نہیں کررہے۔ تصاویر کا اسکینڈل 14 دسمبر کو فیس بک نے ایک اور سیکیورٹی خامی کا اعتراف کیا جس میں سوشل نیٹ ورک میں موجود ایک بَگ نے
68 لاکھ افراد کی تصاویر تک ڈویلپرز کو رسائی دے دی۔ ڈویلپرز کو ان تصاویر تک بھی رسائی مل گئی جو صارفین نے اپ لوڈ تو کیں مگر پوسٹ نہیں کیں۔ ڈیٹا شیئرنگ معاہدے نیویارک ٹائمز نے 18 دسمبر کو اپنی رپورٹ میں بتایا فیس بک کی جانب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو صارفین کے ذاتی ڈیٹا تک بہت زیادہ رسائی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ مائیکروسافٹ کے
بنگ سرچ انجن کو فیس بک صارفین کے دوستوں کے ناموں کو دیکھنے کی اجازت ان کی مرضی کے بغیر دی گئی جبکہ مائیکروسافٹ سرورز پر فیس بک صارفین کی پروفائلز بلٹ کی گئیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسپاٹیفائی، نیٹ فلیکس اور رائل بینک آف کینیڈا صارفین کے ذاتی پیغامات کو پڑھنے، لکھنے اور ڈیلیٹ کرسکتے ہیں جبکہ کسی تھریڈ میں تمام صارفین کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔
ایمازون کو صارفین کے ناموں اور کانٹیکٹ انفارمیشن کے حصول کی اجازت دی گئی، ایپل کو کانٹیکٹ نمبروں اور کیلنڈر ایونٹس تک رسائی دی گئی جبکہ صارفین کی ڈیوائسز سے مطلوبہ ڈیٹا چھپانے کی صلاحیت بھی دی گئی۔ فیس بک نے ڈیڑھ سو سے زائد کمپنیوں سے اس طرح کی شراکت داری 2010 میں کی تھی جن میں سے کچھ اب بھی موثر ہیں۔ 19 دسمبر کو اس وقت فیس بک کو دھچکا لگا۔
جب امریکی حکومت نے پہلی بار فیس بک کے خلاف قانونی اقدامات کا آغاز کیا۔ مشکلات کے خلاف فیس بک کے اقدامات آغاز میں فیس بک نے بحران پر قابو پانے کے لیے معذرت، مختلف فیچرز اور آگے بڑھنے کا رویہ اپنایا۔ فیس بک کے بانی معافی مانگنے پر مجبور مگر پھر اس کا رویہ جارحانہ ہوتا چلا گیا۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کے بعد فیس بک کے اندر عہدیداران کا خیال تھا کہ اس نقصان کی
بھرپائی ممکن ہے اور اس مقصد کے لیے کمپنی نے ایک نیا چیف آف امریکن لابنگ تعینات کیا تاکہ کانگریس کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ خاموشی سے کمپنی کے اندر ایک مہم ‘وی گیٹ اٹ’ کا آغاز کیا تاکہ ملازمین کو یقین دہانی کرائی جاسکے کہ کمپنی 2018 میں ایک بار پھر ٹریک پر واپس آجائے گی۔ اسی طرح جارحانہ لابنگ کی گئی، اپنے مخالفین کے خلاف مہم شروع کی گئی اور بھی ایسے متعدد اقدامات کیے گئے۔