اسلام آباد(ویب ڈیسک) ممکن ہے کہ آپ اسے پڑھتے وقت ہی جمائی لے رہے ہوں کیونکہ یہ بھی ایک متعدی عمل ہے۔ محققین نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر دماغ میں ایسا کیا ہوتا کہ جس سے جمائی آجاتی ہے۔نوٹنگھم یونیورسٹی کی ایک ٹیم اس پر کام کر رہی تھی جسے پتہ چلا ہے کہ دماغ کے جس حصے میں ؎
اعصابی افعال کو منظم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہیں سے جمائی کا عمل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ متعدی جمائی کا راز سمجھ میں آجانے سے اس طرح کی دیگر خرابیوں کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ متعدی جمائی ایکوفینومینا یا گونج کے عمل جیسا ہی ہے جس میں انسان خود بخود ہی کسی دوسرے کی آواز یا عمل کی نقل کرنے لگتا ہے۔ ذہنی بیماریوں جیسے مرگی یا پھر آٹزم کے مریضوں میں بھی ایکوفینومینا ہی پایا گيا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ ایکوفینومینا جیسی صورت حال میں آخر دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے، سائنسدانوں نے 36 رضاکاروں کا اس وقت معائنہ کیا جب وہ دوسروں کو جمائی لیتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اس تحقیق کے نتائج ‘کرنٹ بائیولوجی’ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔ تحقیق کے دوران کچھ رضاکاروں سے کہا گيا تھا کہ اگر انھیں جمائی آئے تو وہ جمائی لیں جبکہ کچھ سے کہا گیا کہ اگر انھیں جمائی آئے تو وہ اس پر کنٹرول کریں اور اس سے گریز کریں۔ اس کے مطابق کسی شخص میں جمائی لینے کی خواہش میں کمی اسی مناسبت سے تھی کہ اس کے دماغ کا وہ حصہ کس طرح سے کام کرہا ہے، ایکسائیبیلٹی یعنی تحریک پذیری کا عمل کیسے ہوتا ہے۔ ایکسٹرنل، ‘ٹرانسکرینیئل میگنیٹک سٹمیولیشن’ (ٹی ایم ایس) کے استعمال سے دماغ کے اس حصے میں ایکسائیبیلٹی میں اضافہ ممکن ہے اور اس طرح لوگ متعدی جمائی کے اپنے
فطری میلان میں کمی کر سکتے ہیں۔ نیورولوجی کے ماہر پروفیسر جیورجیئن جیکسن، جنھوں نے اس پر کام کیا ہے، کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہونے والی دریافت کا استعمال بہت سی دیگر خامیوں میں کیا جا سکتا ہے۔پروفیسر سٹیفین جیکسن نے بھی اس پروجیکٹ پر کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ‘اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ دماغ کے اس حصے میں ہونے والی تحریک پذیری کو، جو کئی قدرتی خرابیوں کی وبجہ بنتی ہے، کیسے بدلا جاسکتا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اسے ہونے سے روک سکیں۔’ نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو گیلپ، جنھوں نے دوسرے شخص کی حرکات و سکنات اور جمائی کے درمیان کے رابطے پر تحقیق کی تھی کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں ابھی بھی نہیں پتہ ہے کہ آخر ہم جمائی کیوں لیتے ہیں۔ البتہ بہت سی تحقیقات سے لوگوں کی حرکات و سکنات اور متعدی جمائی کے درمیان رابطے کا پتہ چلا ہے۔ لیکن اس بارے میں اب تک ہونے والی تحقیق میں تسلسل کی بھی کمی ہے۔’