بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

پاکستان کے ڈرون حملے کی درستگی سے مغربی ماہرین بھی حیرت زدہ رہ گئے

datetime 15  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوز ڈیسک)برطانوی میڈیانے دعویٰ کیاہے کہ پاکستان کے براق نامی جاسوس طیار ے نے شمالی وزیرستان میںہدف کوجس نفاست اور درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا اس پر مغربی ماہرین حیرت زدہ ہیں، خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو مہیا کی جانے والی اس ٹیکنالوجی کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے،شروع میں محض جارحانہ طور پر ڈرون حملوں کا استعمال کرنے والے ممالک بہت کم تھے لیکن اب ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“ کی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملے اکثر متنازعہ خیال کئے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی خیال ہے کہ ڈرون حملہ کرنے والا ملک کسی بھی جنگ میں براہ راست ملوث نہیں ہوتا اور اس کا عملہ کسی بھی نقصان سے محفوط رہتا ہے۔ ڈرون پر ایک طرف جنگ کے دوران حدود کی خیال نہ رکھنے کا الزام ہے تو دوسری طرف ان کو انسداد دہشت گردی اور امن و امان کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔یہ بات کسی حیرت سے کم نہیں جب برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی شہری جو مبینہ طور پر نام نہاد دولت اسلامیہ کا رکن تھا ملک کی رائل ایئر فورس کے ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا ہے۔ برطانیہ کے جنگی جہاز اور ڈرون عام طور پر شام میں حملے نہیں کرتے کیونکہ برطانیہ وہاں جنگ میں ملوث نہیں ہے لیکن ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والا شخص برطانوی شہری تھا۔ سزائے موت کےخلاف احتجاج کرنے والے گروپ اور سماجی تنظیموں نے اس واقعے کے بعد فورا خبردا ر کیا کہ ڈیوڈ کیمرون کی حکومت بھی امریکہ والا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے، جس کے تحت ڈرون انسداد دہشت گردی کے لئے اولین ترجیح ہے۔ برطانوی حکومت کا اصرار ہے کہ مذ کورہ شخص برطانیہ پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور اس کو روکنے کےلئے ڈرون سے موزوں کوئی راستہ نہیں تھا اس واقعے کے بعد مسلح ڈرون جن کو بے نام ہوائی سواری (یو اے ویز)بھی کہا جاتاہے اپنی غیر معمولی افادیت ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس کے وسیع استعمال کے ساتھ بہت سی قانونی اور اخلاقی خلاف ورزیاں بھی ہیں جو ابھی تک جواب طلب ہیں۔
ابھی تک دنیا کے چند ممالک کے پاس ہی ڈرون کو اس طرح استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی اور جاسوسی مہارت تھی۔ امریکا اور اسرائیل ممکنہ طور پر اس ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھے اور ان کے کچھ دوست ممالک ان کی اس ٹیکنالوجی کو چلانے میں مدد کررہے تھے لیکن اب مسلح ڈرون کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں پاکستان نے براق نامی ایک مسلح جاسوس طیارہ شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ایک نشانے پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ جس نفاست اور درستگی کے ساتھ یہ حملہ کیا گیا اس نے مغربی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو مہیا کی جانے والی اس ٹیکنالوجی کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے۔ شروع میں محض جارحانہ طور پر ڈرون حملوں کا استعمال کرنے والے ممالک بہت کم تھے لیکن اب ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
چین اور ایران کے بارے میں بھی خیال ہے کہ وہ اپنے مسلح ڈرون تیار کرچکے ہیں جبکہ بہت سے دوسرے ممالک نے اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ حتی کہ حزب اللہ جیسی مسلح تنظیم نے بھی 2006 میں اسرئیل کے ساتھ جنگ میں ڈرون کا استعمال کیا تھا۔ جون میں امریکی تھنک ٹینک نیو امیریکن سیکیورٹی کے جائزے کے مطابق دنیا کے تقریباً 90ممالک کے پاس کسی نہ کسی قسم کی ڈرون ٹیکنالوجی ہے جن میں سے 30 ممالک ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلح کرنےکی خاطر یہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔
ڈرون کے زیادہ ترحملوں کے طریقہ کار میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ اسے استعمال کرنے والے ممالک یا تو اس ٹیکنالوجی کو ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور یا پھر اس کی براہ راست نقل کرتے ہیں۔ امریکی فضائیہ کا ایم کیو9 ریپر جو تیز رفتاری کے ساتھ درمیانی سے نیچی پرواز کی صلاحیت رکھتا ہے اپنی پرانی ساخت کے ایم کیو1 پریڈیٹر سے رفتار اور پرواز دونوں میں بہتر ہے۔ 9ریپر برطانیہ کی فضائیہ بھی استعمال کررہی ہے۔ ایلبٹ کمپنی کا تیار کردہ درمیانی اونچائی پر دیر تک پرواز کرنے والا اسرئیلی ڈرون ہرمس 900 پہلی مرتبہ غذا کے خلاف آپریشن پروٹیکٹو ایج میں استعمال کیا گیا تھا۔ چین کے چینگ ڈو ایئر کرافٹ ڈیزائن اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بنائے جانے والے ونگ لونگ کی تیاری 2005 میں شروع کی گئی لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہےکہ وہ بنیادی طور امریکا کے ایم کیو 1 بریڈیٹر سے مشابہ ہے کچھ ماہرین ڈرون کے حق میں ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ڈرون ایک جانبدار فائدہ ہے کیونکہ حملہ کرنے والے ملک کی فوج کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتی ہے جو جنگ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
یہ سوچنا بھی کسی بے وقوفی سے کم نہیں ہوگا کہ جنگ، جو خود ایک ناپسندیدہ عمل ہے، کسی بھی طرح سے ‘منصفانہ’ ہوسکتا ہے۔ اپنی افواج اور وسائل کی حفاظت اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہی جنگ کا اولین مقصد رہا ہے۔ لیکن پھر بھی مسلح ڈرون دنیا میں ہتھیاروں کے عدم استحکام میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلح ڈرونز کی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اس کی فروخت پر ایک معاہدے کی شکل میں واضح بین الاقوامی مفاہمت ہونی چاہے۔
ڈرون کا گھنٹوں ایک علاقے کا گشت کرنے کے بعد نشانے کو تلاش کرنا اورپھر حد درجہ درستگی کے ساتھ فوری حملہ کرنے کی صلاحیت سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ وہ ہتھیار ہیں جن کے متواتر استعمال کی اجازت ہونی چاہئے۔ یہ حقیقت کہ ڈرون استعمال کرنے والے ممالک کی افواج کو نقصان کا کم خطرہ ہوتا ہے اور یہ کہ ان کو چھوٹے پیمانے اور خفیہ طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ان کو ایک پرکشش انتخاب بناتاہے۔ جون 2014 میں خارجہ تعلقات کی کونسل نے تجویز کیا تھا کہ ڈرون کو ہتھیاروں کے ایک منفرد زمرے میں رکھا جائے۔کونسل نے اعتراض کیا کہ ڈرون کے پھیلا پر قابو پایا جائے اور امریکا جو ڈرون کو سب سے ذیادہ استعمال کررہا ہے اس کے اخلاقی ضابطے وضع کرے۔ امریکا کے ناقدین کا خیال ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا نے جس تواتر کے ساتھ ڈرون کا استعمال کیا ہے اس نے پہلے ہی بہت عدم استحکام پیدا کردیا ہے۔یہ واضح ہے کہ ڈرون صرف جنگی ہتھیار نہیں ہے۔امریکا نے اکثر بہت سے ایسے ممالک میں سیکڑوں ڈرون حملے کئے ہیں جہاں پر وہ براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہے۔ اس طرح کی ڈرون حملوں کی افادیت پر اکثر سوال کیا جاتاہے کہ کیا واقعی ان حملوں سے نشانہ بنائے جانے والے دہشت گروپ ختم ہوگئے ہیں یا پھر کتنے معصوم شہری اس عمل میں ہلاک ہوگئے ہیں؟ ڈرون نے جنگ اور انسداد دہشت گردی کےفرق کو دھندلا کر دیا اور اسی لئے ڈرون حملوں پر تنقید کرنے والے اکثر اس کو ‘ماورائے عدالت قتل’ سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔ یقینا حکومتیں ان ڈرون حملوں کے جائز ہونے پر اصرار کرتی ہیں، جیسا کہ برطانوی حکومت نے شام پر کیے جانے والے ڈرون حملے کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق بالکل جائز قرار دیا۔سیکیورٹی کے مسائل سول ڈرون ٹیکنالوجی کے پھیلا کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کے تحت کوئی بھی انتہائی جدید، گوکہ غیر مسلح ڈرون خرید سکتا ہے لیکن اس کے بارے میں خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ کوئی دہشت گرد گروہ بھی ان کو خرید کر مسلح کرسکتا ہے اور حملوں کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ مسلح ڈرونز کے استعمال سے پیدا ہونے والے جنگی، قانونی اور اخلاقی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ اور جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ ممالک اسے استعمال کرتے جایئں گے یہ مسائل مزید برھتے جائیں گے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلح ڈرونز کی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اس کی فروخت پر ایک معاہدے کی شکل میں واضح بین الاقوامی مفاہمت ہونی چاہئے، جو اس منفرد قسم کے ہتھیار کے استعمال کی حد مقرر کرے۔



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…