اسلام آباد (نیوزڈیسک ) نظام شمسی میں موجود دیگر سیاروں اور ان کے گرد چکر کاٹتے چاندوں کی کل تعداد دیکھی جائے تو یہ سوال ذہن میں سر اٹھانے لگتا ہے کہ اگر پلوٹو زمین کے مقابلے میں چھٹے حصے کے برابر ہونے کے باوجود بھی 5چاند کا مالک ہوسکتا ہے تو ایسے میں زمین کے حصے میں صرف ایک ہی چاند کیوں آیا؟اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ نظام شمسی کو کچھ سمجھ لیا جائے۔ دراصل نظام شمسی میں موجود سیاروں کو دو طرح سے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کچھ ٹیرسٹریئل ہیں جبکہ کچھ جوویئن ہیں۔ ٹیرسٹریلئل سیاروں میں زمین ، مریخ، زہرہ اور عطارد شامل ہیں۔ ان چار سیاروں کے حصے میں کل تین چاند آئے ہیں جن میں سے دو مریخ کے پاس ہیں جن کے نام فوبوز اور ڈیموز ہیں جبکہ ایک زمین کے حصے میں آگیا۔ زہرہ اور عطارد کے حصے میں ایک بھی چاند نہ آسکا۔ جوویئن سیارے وہ ہیں، جن کے گرد ایک دو نہیں بلکہ درجنوں کی تعدا دمیں بھی چاند موجود ہیں۔ ناسا کی تازہ ترین گنتی کے مطابق جوپیٹر کے پاس67، سیٹرن کے پاس ساٹھ سے زائد یورینس کے پاس27جبکہ نیپچون کے پاس کل14چاند ہیں۔ پلوٹو کے کل چاندوں کی تعداد فی الحال تک پانچ گنی گئی ہے۔ خلائی نظریات کے مطابق کوئی بھی سیارہ مروجہ تین طریقوں میں سے ایک سے چاند حاصل کرتا ہے۔ ان میں پہلا امکان یہ ہوتا ہے کہ جب سیارہ کسی جسم سے ٹکراتا ہے تو اس کے نتیجے میں خود ان کا اپنا ٹوٹنے والا حصہ ان کے گرد طواف شروع کردیتا ہے۔ دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ قریب سے گزرتے کسی جسم کو اپنی کشش ثقل کی بنیاد پر کھینچ لیتے ہیں اور یہ چاند بن کے طواف شروع کردیتی ہے۔ یہ اپنے چاند خود بنا لیتے ہیں۔امکان ہے کہ زمین نے پہلے طریقے سے اپنا چاند پایا ہے یعنی کہ اس سے کوئی چیز ٹکرائی اور اس نے زمین کے گرد مدار میں چکر کاٹنا شروع کردیا۔ سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ساڑھے چار کھرب برس قبل زمین سے تھیا نامی ایک جسم ٹکرایا تھا۔ یہ جسم حجم میں مریخ برابر تھا اورپھر یہ ” ہمارا چاند“ کہلایا۔ مریخ کے دو چاندوں کے بارے میں دوسرا نظریہ استعمال کیا جاتا ہے کہ اس نے قریب سے گزرتے اجسام کو کھینچ لیا۔ اس نظریئے کو مریخ کی ایسٹرائڈ بیلٹ قربت بھی زیادہ فروغ دیتی ہے۔ پلوٹو کے پانچ چاندوں کے بارے میں بھی یہی نظریہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مریخ کے سب سے چھوٹے چاند جنہیں نکس اور ہائیڈرا کہا جاتا ہے ، برف کے بنے اجسام ہیں۔ خیال ہے کہ یہ کسی طرح پلوٹو کے انتہائی نزدیک پہنچے اوراس کی کشش کی گرفت میں آگئے۔ اندازہ ہے کہ جوپیٹر اور سیٹرن نے تیسرے طریقے سے چاند پائے، تب ہی ان کے حصے میں سب سے زیادہ چاند آگئے۔ نظام شمسی میں موجود نو سیاروں کے گرد گھومتے سینکڑوں چاندوں میں سے کچھ زمین کی مانند جغرافیہ رکھتے ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ زمین کے بعد زندگی کے قیام کے حوالے سے یہ اجسام سب سے زیادہ امید افزائ ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں