اسلام آباد(نیوزڈیسک) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے سائبرکرائم بل پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ بات کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔آئی ٹی انڈسٹری کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کے خدشات پر توجہ دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنے اراکین سے کہا ہے کہ وہ اس انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر الیکٹرانک جرائم کو روکنے کے بل (پی ای سی بی) 2015ئ میں موجود غلطیوں کو درست کریں۔مذکورہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر نے اس حوالےسے بتایا کہ یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے جانے کا منتظر ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈر نے اس حوالے سے اپنے جو خدشات بیان کیے ہیں، انہیں سننے کے بعد ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ اس پر باہم مل کر دوبارہ غور کیا جائے اور اس قانونی مسودے کو عوام کے مفاد میں بنایا جائے۔ انہوں نے سائبر کرائم بل کے ناقدین کو عوامی سماعت کی اجازت میں نرمی ظاہر کی۔ جبکہ اس کمیٹی کے پچھلے چند اجلاسوں کے چیئرمین اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے۔تاہم حزبِ اختلاف کے اراکین کی متواتر درخواستوں کے بعد انہوں نے اسٹیک ہولڈر کو اپنا موقف پیش کرنے کا آخری موقع دیا ہے۔آئی ٹی انڈسٹری کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کو ابتداء میں پارلیمنٹ کے احاطے میں ہی داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا، لیکن پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کی مداخلت کے بعد انہیں اجازت دی گئی، جو خود چل کر گیٹ تک گئیں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کوئی بنکر نہیں ہے اور کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے مدعو کیے گئے مہمانوں کو داخلے کی اجازت دی جانی چاہیے۔چیئرمین سے مشترکہ ایکشن کمیٹی نے اس بات پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اعتراض بھی کیا کہ صحافی تنظیموں کی طرز کے بہت سے اسٹیک ہولڈرز جو اس قانون کی موجودہ حالت سے متاثر ہوسکتے ہیں، انہیں مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔مشترکہ ایکشن کمیٹی کے اراکین کی جانب سے بل کے مسودے کی متعدد شقوں پر اعتراضات کیے، جس کی وجہ سے 90 منٹ سے زائد کی یہ ملاقات تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔اسٹیک ہولڈر نے ہر ایک شق پر بات کی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اس بل کے مسودے میں کیا شامل کیا جانا چاہیے اور کیا ترمیم کرنی اور کسے خارج کردینا چاہیے۔مشترکہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے بولو بھائی کی فریحہ عزیز نے کہا کہ سائبر کرائم کا یہ بل موجودہ حالت میں آئی ٹی انڈسٹری اور نوجوان پروفیشنل پر ناموافق اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں اقتصادی سرمایہ کاری اور آئین حقوق اور تحفظات کو متاثر کرے گا۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی پر زور دیتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ اس بل کے سیکشن 9، 15، 18، 22، 29 کو خارج کردیا جائے، جس کے تحت ٹیکسٹ وصول کنندہ کی رضامندی کے بغیر میسیجنگ اور ای میلز بھیجنا جرم قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے خاص طور پر سیکشن 32 کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بارے میں مشترکہ ایکشن کمیٹی کو یقین ہے کہ ”یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، میڈیا کی آزادی سے روکتا ہے، اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو حکومت پر تنقید کی طرز کے