پراسرار بیماری کا شکار مریضہ کا مرض کیسے دریافت ہوا؟

11  اپریل‬‮  2015

میساچیوسیٹس (نیوزڈیسک) ولبراہم کے ڈاکٹر سپینسر ہیلر کے پاس آنے والی یہ مریضہ پر اسرار مرض کا شکار تھی۔ متاثرہ خاتون کی سانسیں اچانک تناو¿ کا شکار اور رفتار تیز ہوجاتی تھی۔ اس دوران نہ تو اسے پسینہ آتا نہ ہی متلی محسوس ہوتی اور نہ ہی کوئی دوسری تکلیف ہوتی تاہم سانسوں کی آمد و رفت کے معمول سے ہٹ جانے کے سبب وہ خود کو بے آرام محسوس کرتی تھی۔اس کے فیملی ڈاکٹر کیلئے اس مرض کو سمجھنا ناممکن تھا، جس بنا پر اس نے ڈاکٹر ہیلر سے رابطہ کیا تھا۔ اس خاتون کی عمر64برس تھی اور اس کا کہنا تھا کہ سانس لینے کیفیت میں یہ تبدیلی دن میں کئی بار واقع ہوتی تھی۔ اس عجیب و غریب تکلیف کا دورانیہ ایک منٹ سے بھی کم کا ہوتا تھا اور کبھی کبھار تو یہ جسمانی مشقت والے کاموں کے دوران ہی ہوتی مگر اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ آرام کے دوران بھی سانس اکھڑنے کی مانند یہ پراسرار تکلیف ہوجاتی تھی۔ اس تکلیف کا دورانیہ ایک منٹ سے بھی کم کا ہوتا تھا تاہم دن بھر میں اسے ایسے کئی درجن دورے پڑا کرتے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خاتون کو بس اتنی سی فکر تھی کہ کسی طرح ان کا یہ مرض ان کے امیوزمنٹ پارک کے ٹرپ کو متاثر نہ کرے ، جس کیلئے وہ کئی ہفتوں سے منصوبہ بندی کررہی تھیں۔
ہیلر نے مریضہ کے معائنے کے بعد اس کے تھائیرائیڈ، خون کی سطح اور دیگر بنیادی نوعیت کے ٹیسٹ کروائے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح دل سے ہوسکتا تھا۔رپورٹس سامنے آنے پر ڈاکٹر ہیلر بھی اسی قدر الجھن کا شکار ہوگئے جس قدر کہ مریضہ کا خاندانی معالج ہوگیا تھا کیونکہ تمام رپورٹس نارمل تھیں۔ ڈاکٹر ہیلر نے امکان ظاہر کیا کہ یہ ذہنی دباو¿ کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مریضہ جب بھی اپنے شوہر سے متعلق کوئی کام یا بات کرتی تو ہی یہ کیفیت ہوتی تھی مگر چونکہ وہ اپنی تشخیص سے مطمئن نہ تھے ، اس لئے انہوں نے مریضہ کو پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ماہر معالج ڈاکٹر رینکن کے پاس بھیج دیا۔
ڈاکٹر رینکن کے لئے یہ مریض اس قدر حیران کن تھا کہ انہوں نے بے ساختہ سانسوں کی اس عجیب و غریب آمد و رفت کی ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت مانگ لی۔ اسی دوران انہیں اچانک یاد آیا کہ زمانہ طالب علمی میں جب وہ سال دوئم میں زیر تعلیم تھے تو انہوں نے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں ایک مضمون پڑھا تھا جس میں ایسے ہی ایک مریض کا تذکرہ تھا جو ایسی ہی تکلیف میں مبتلا تھا۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ کہ دراصل سانس کی یہ کیفیت ڈایافرام کے پٹھوں کے غیر ارادی پھڑکنے سے ہوتی ہے جسے ریسپائریٹری میوکلونس کہتے ہیں۔ یہ بیماری انتہائی کم مریضوں میں پائی جاتی ہے اور طبی لٹریچر میں ایسے 100مریضوں کی موجودگی کا تذکرہ موجود ہے۔ اس سلسلے کا پہلا مریض17ویں صدی میں شناخت کیا گیا تھا جب ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک شوقیہ طبیب نے اپنے ہی اندر یہ مرض دریافت کیا اور اس بارے میں اپنی تمام کیفیات پر مبنی ایک مضمون لکھ ڈالا۔ تب سے اب تک ایسے چند درجنوں مریضوں کی ہی شناخت ممکن ہوسکی ہے۔ ڈاکٹر رینکن کو یہ تو نہیں معلوم کہ انہیں یہ مضمون اور اس میں بتائے گئے مرض کی نوعیت کیوں یاد رہے گئی تاہم شائد قدرت نے انہیں اس مریضہ کیلئے مسیحا بنانے کا ارادہ کررکھا تھا، اسی لئے ایسے حالات بھی پیدا کیئے کہ انہیں وہ مضمون پڑھنے کا موقع ملا اور پھر وہ یاد بھی رہ گیا۔ اس مرض کا اس کے سوا اور کوئی علاج موجود نہیں کہ مریض کو سکون آور ادویات دی جائیں تاکہ اس کے اعصاب کو پرسکون بنا کے ڈایافرام میں اس غیر معمولی پھڑکن کو کم کیا جاسکے۔
ڈاکٹر رینکن کے پاس یہ مریضہ آج سے پانچ برس قبل آئی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل ڈاکٹر رینکن کی زیر نگرانی ہے۔ خاص امر یہ ہے کہ اس عجیب و غریب بیماری کے پس پشت کوئی دوسری ذہنی یا جسمانی بیماری کارفرما نہیں ہوتی ہے، ایسے میں اس کا علاج بھی ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر رینکن کہتے ہیں کہ جس طرح آج سے پانچ برس پہلے اس مریضہ میں سانس کی اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجہ جاننا ناممکن تھا، اسی طرح آج بھی یہ جاننا ناممکن ہے کہ بتدریج اس کی یہ کیفیت کیونکر ٹھیک ہورہی ہے تاہم حیرت انگیز اتفاق ہے کہ پانچ برس میں مریضہ اس عجیب و غریب بیماری سے تقریباً نجات پاچکی ہے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…