ایسیکس (نیوزو ڈیسک) سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہنے کو جس طرح گلیمرائز کیا جاتا ہے، حقیقت اس سے بالکل مختلف اور خوفناک ہے۔ اس امر کا انکشاف چینل فور سے نشر ہونے والی ڈاکیومینٹری کی سیریز ”ٹینز“ میں کیا گیا ہے۔ اس سیریز کی تاحال ابھی پہلی قسط ہی نشر ہوئی ہے تاہم اس میں نوجوانوں کے المیئے سے جس انداز میں پردہ اٹھایا گیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے امید کی جارہی ہے کہ یہ چینل کی ریٹنگ کو بھی بڑھائے گی اور سماج کو اس المیئے کا بھی احساس دلائے گی جس کا شکار نوجوان نسل ہے۔ اس ڈاکیومینٹری کی تیاری کیلئے محققین نے یکم جنوری 2014سے نوجوانوں کے ایک گروہ کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس دوران ان کا سامنا دس لاکھ ٹیکسٹ پیغامات، سنیپ چیٹس، واٹس ایپ میسج اور ٹوئٹس سے ہوا۔ ساتھ ہی وہ 16برس کی انتہائی کم عمری میں نوجوانوں کو دوستی کے عروج و زوال کے حوالے سے ہونے والے تجربات کا ایک گراف بھی بناتے گئے۔ اس ڈاکیومینٹری میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا کی بدولت نوجوانوں کو ان مسائل سے آگہی کے بہتر مواقع مل رہے ہیں جو کہ ان کے بڑوں کو حاصل نہ تھے لیکن ساتھ ہی یہ ان مسائل سے بھی پردہ اٹھاتی ہے جو کہ چوبیس گھنٹا ہفتے کے سات دن سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی حلقے سے رابطہ میں رہنے کے باعث ان نوجوانوں کو درپیش ہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کی ذاتی پسند نہ پسند کو بھی چھپا نہیں رہنے دیا ہے، اب اگر وہ اپنی سچ مچ کی پسند نہ پسند کے مطابق سوشل گروپس یا پیجز جوائن یا لائک کرتے ہیں تو انہیں اپنے حلقہ احباب کی جانب سے مزاق کا نشانہ بننے کا خطرہ لاحق رہتا ہے اور اگر وہ اس میڈیم کے ذریعے اپنی ایک مصنوعی تصویر پیش کرتے ہیں تو یہ ان کی شخصیت کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتی ہے جس کے ان کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی بدولت جذبات پر قابو رکھنا بھی نوجوان بھولتے جارہے ہیں کیونکہ کمپیوٹر سکرینز کے پیچھے چھپے ہونے کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا سے چھپ کے اس پر وار کیا جاسکتا ہے، اور یہی غلط فہمی نوجوان نسل کو بدتمیزی کی حد تک منہ پھٹ بنا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت ہر لمحہ دنیا کو باخبر رکھنے کے رجحان نے درحقیقت انہیں اس خوف میں بھی مبتلا کردیا ہے کہ اگر وہ رابطے کے اس میڈیم سے خود کو علیحدہ کرلیں گے تو ایسے میں وہ اپنے حلقہ احباب سے کٹ جائیں گے۔ یہ خوف یا احساس تنہائی انہیں ہر لمحہ ان جدید ایپس سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے اور یوں وہ اس مصنوعی دنیا کا ایک مشہور کردار تو بن جاتے ہیں لیکن اپنے اطراف میں موجود اصل رشتوں سے دور ہوجاتے ہیں۔