اسلام آباد(نیوزڈیسک) حکومت ’ناپسندیدہ‘ مواد کی نشریات کو روکنے کے لیے کیبلز آپریٹرز کو ٹی وی چینلز کی ٹرانسمیشن کو بلاک کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس کے لیے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ایکٹ 2007ءمیں ممکنہ ترمیم پر حکومت نےتبادلہ خیال کیا ہے۔ ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ یہ ترمیم اس اتھارٹی کو کسی سیٹیلائٹ کے ذریعے نشر ہونے والے کسی خاص ٹی وی چینل کے سنگنلز کو ’منقطع‘ کرنے کااختیار دے گی، جس سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی کیبل آپریٹر یا ٹیلی ویڑن سیٹ اس چینل کی نشریات کو وصول نہ کرسکے۔ اس سلسلے میں پیمرا کو خلائ اور بالائی فضا کے تحقیقاتی کمیشن سپارکو کی مدد درکار ہوگی۔ سپارکو خلائی تحقیق پر ایک قومی ادارہ ہے، جسے 1961ءمیں قائم کیا گیا تھا، یہ ادارہ خلائی سائنس اور خلائی ٹیکنالوجی میں ترقی و تحقیق کا کام کرتا ہے۔ سیٹیلائٹ اور میڈیا کمیونیکیشن کے ایک ماہر ریحان حسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویڑن چینلز اپنے سنگنلز ایک مخصوص فریکوئنسی پر سیٹیلائٹ کو بھیجتے ہیں، جو خلاءمیں ایک آئینے کی مانند کام کرتا ہے۔ سیٹیلائٹ ان سگنلز کو ایک دوسری فریکوئنسی پر منعکس کردیتا ہے، جو ڈش اینٹینا کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں۔ ریحان حسن نے کہا کہ سپارکو اسی فریکوئنسی پر مزید طاقتور سگنلز بھیج کر ٹی وی چینلز کے سنگنلز کو منتشر کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ پاک سیٹ سیٹیلائٹ کو ہدایت دے کر نجی ٹیلیویڑن چینلز کے سگنلز کو معطل کرکے ان کی ٹرانسمیشن کو ’بلیک آو¿ٹ‘ بھی کرسکتا ہے۔ ایک سینئر حکومتی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اس ترمیم کا مسودہ تیار کرلیا گیا تھا، اور کچھ حکام اور قانونی ماہرین کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اس بل کا مسودہ تیار کرنے سے پہلے سپارکو کے سینئر حکام نے سرکاری عہدے داروں اور قانون سازوں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں سیٹیلائٹ ٹیلیویڑن چینلز اور ان کے سیٹیلائٹ سے زمینی اسٹیشن کے ساتھ ٹرانمیشن ربط کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ سپارکو کے حکام نے واضح کیا کہ ہر ایک ٹیلیویڑن چینل اپنی نشریاتی لہر ایک سیٹیلائٹ کو بھیجتا ہے، جسے سیٹیلائٹ کے ذریعے کیبلز آپریٹرز اور ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ڈشز لگا رکھی ہیں، واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ حکام نے واضح کیا کہ ٹرانسمیشن کو سیٹیلائٹ کو بھیجی گئی نشریاتی لہروں میں رکاوٹ پیدا کرکے فوری طور پر بلاک کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری حکام عہدے دار نے کہا کہ اس تجویز کو دیگر بہت سی تجاویز کے ساتھ قومی ایکشن پلان کا حصہ بنادیا گیا ہے، جسےسولہ دسمبر 2014ءکو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”قومی ایکشن پلان سیکیورٹی کی عام صورتحال سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں ضابطہ اخلاق کا نفاذ بھی کرتا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دہشت گردوں کے حملوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں یا دہشت گردی کی ستائش پر مبنی کوریج کو کنٹرول کرنے کے لیے میڈیاکی کڑی نگرانی کی جائے۔ ان تمام مسائل پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے تبادلہ خیال کیا تھا، جس نے میڈیا کے لیے مجوزہ رہنما خطوط پر مبنی تفصیلی دستاویز بھی جاری کی تھی۔ تاہم قومی اسمبلی کی اس کمیٹی نے نشریات کو منقطع کرنے کے آپشن پر بات چیت نہیں کی تھی۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ اس ترمیم کے مسودے کی تیاری سے قبل نیوز چینلز سے بھی مشورہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی سے سیاسی رہنماو¿ں کی براہِ راست نشریات پر بھی بحث کی گئی تھی۔ مذکورہ عہدے دار نے مزید کہا ”مجوزہ ترمیم کو اگر ایک قانون کے طور پر منظور کرلیا گیا تو یہ پیمرا کو اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ اس کو یقینی بنائے گا کہ سیاست دانوں کی طویل تقاریر، ہجوم کے تشدد کی تصاویر اور دہشت گرد حملوں کی انتہائی ناخوشگوار مناظر نہیں دکھائے جائیں۔“
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں