لندن میں ڈاکٹروں نے 1600 انسانی دلوں کو ڈیجیٹل شکل میں ایک کمپیوٹر پر ذخیرہ کیا ہے۔
اس زخیرے کا مقصد ہے کہ مریضوں کے جین کے ساتھ دل کی تفصیلی معلومات کا موازنہ کرکے نئے علاج ایجاد کیے جائیں۔
یہ وسیع معلومات کے زخیرے کے استعال کا تازہ ترین پروجیکٹ ہے۔ یہ مطالع نئے ’بڑے ڈیٹا‘ پر مبنی نئی لہر میں سے ایک ہے جو کہ تحقیق کے طریقے میں زبردست تبدیلی کا محرک رہا ہے۔
ہیمر سمتھ ہسپتال میں میڈیکل کونسل کے کلینیکل سائنسز سنٹر کے سائنسدانوں نے 1600 مریضوں کے دل کی تھری ڈی تفصیلات اکٹھا کی ہیں اور ہر ایک رضا کار سے ان کی جینیاتی معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ڈکلان او ریگن جو اس مطالعے میں شامل ہیں انھوں نے کہا کہ ’اس نئے طریقے میں معمول کی طبی جانچ کے مقابلے میں بہتر امکانات موجود ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ’لوگوں کی جین اور دل کی بیماری کے درمیان بہت پیچیدہ رشتہ ہے اور ہم ابھی تک ان کے بارے میں جاننے کی کوشش میں لگے ہیں۔ لیکن دل کی واضح تھری ڈی تصویر کی صورت میں ہمیں امید ہے کہ اس سے دل کی بیماری کے اسباب کو سمجھنے میں اضافہ ہوگا اور ہم مریض کو بروقت صحیح علاج فراہم کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اتنے زیادہ اعداد و شمار کے اکٹھا کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کا موازنہ کیا جائے اور بیماری کی وجہ کے مشترک اسباب کا پتہ چلایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’اکثر بیماری کے آغاز کی علامت بہت ہلکی ہوتی ہے اور اس کی شناخت مشکل ہوتی ہے لیکن کمپیوٹر اس کی شناخت کرنے بہت حساس ثابت ہوا ہے اور اس کی مدد سے علامت کو مرض میں تبدیل ہونے سے پہلے شناخت کیا جاسکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ ’بڑے دیٹا‘ کا تصور بہت سے سائنسی شعبوں میں اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے اور اس میں واقعی بہت وسیع تعداد کو شامل کیا جا رہا ہے۔
کمیبرج کے یوروپیئن بایوانفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ میں ہزاروں نباتات اور حیوانات کے تمام جینیاتی کوڈ کو جمع کیا گیا ہے۔ اس میں درج معلومات اتنی وسیع ہے کہ اس کے لیے پانچ ہزار لیپ ٹاپ چاہیے۔
اسی طرح کے ایک اور مطالعے میں انسانی دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو جاننے کے لیے جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نیوروامیجنگ کے انسٹی ٹیوٹ میں 30 ہزار انسانی دماغ کی تھری ڈی اسکین ذخیرہ کیے جا رہے ہیں اور اس ڈیٹا کی وسعت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر اس کو لیپ ٹاپ پر منتقل کرنا ہو تو اس کے لیے آپ کو 10 ہزار لیپ ٹاپ ضرورت ہوگی۔