اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سینئر صحافی حامد میر نے بلوچستان میں حال ہی میں پیش آنے والے غیرت کے نام پر قتل کے واقعے سے متعلق ایک اہم اور سنسنی خیز انکشاف کیا ہے، جس نے اس کیس کے تناظر کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ بیان میں حامد میر کا کہنا تھا کہ انھیں مطلع کیا گیا ہے کہ مقتولہ بانو کے والد اور شوہر اس قتل کے سخت خلاف تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بانو کو احسان نامی شخص کی جانب سے بلیک میل کیا جا رہا تھا۔ حامد میر کے مطابق بانو نے جان کا نذرانہ دے کر اپنے خاندان کو ایک بااثر سردار کے غصے اور ممکنہ انتقامی کارروائی سے بچایا۔ وہ سردار کسی تفتیش یا مکمل معلومات کے بغیر، دونوں کو مار دینے کے احکامات صادر کر چکا تھا۔یاد رہے کہ یہ لرزہ خیز واقعہ عید سے کچھ دن قبل بلوچستان کے ایک قبائلی جرگے کے فیصلے پر پیش آیا، جس میں ایک خاتون اور مرد کو مبینہ طور پر “غیرت” کے نام پر گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت ملک بھر میں توجہ کا مرکز بن گیا جب اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
بلوچستان حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے 13 افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں وہ سردار بھی شامل ہے جس پر قتل کا حکم دینے کا الزام ہے — اس کی شناخت شیرباز کے نام سے ہوئی ہے۔کوئٹہ کی پولیس سرجن، ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق مقتولین کی قبر کشائی کے بعد پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خاتون کو سات گولیاں لگیں، جن میں ایک گولی سر پر ماری گئی، جبکہ مرد کو نو گولیاں لگیں، جو سینے اور پیٹ میں پیوست ہوئیں۔ یہ واقعہ 4 جون 2025 کو سنجیدی ڈیگار کے علاقے میں پیش آیا، جو تھانہ ہنہ سے تقریباً 40 تا 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے مطابق مقتولہ بانو کے پانچ بچے ہیں، جبکہ قتل ہونے والے شخص احسان کی عمر تقریباً 50 برس تھی اور اس کے بھی چار یا پانچ بچے تھے۔ پولیس نے اس دل دہلا دینے والے جرم میں ملوث ہونے کے شبہے میں 15 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا ہے۔یہ واقعہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ انسانی حقوق کے حلقوں کے لیے بھی ایک کڑا امتحان بن چکا ہے، جہاں قبائلی روایات اور جدید قانون کے درمیان کشمکش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔