اسلام آباد (نیوز ڈیسک)خلیجی ملک میں کام کرنے والے معظم علی (فرضی نام) تین ماہ قبل پاکستان واپس آئے تھے اور مختصر قیام کے بعد دوبارہ بیرون ملک جانے کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے۔ تاہم، امیگریشن حکام نے انہیں سفر سے روک دیا کیونکہ ان کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں شامل تھا۔
معظم علی کے مطابق، وہ قانونی ذرائع سے بیرون ملک گئے اور حال ہی میں واپس آئے تھے، اس لیے ان کا نام اس فہرست میں شامل ہونا حیران کن تھا۔ اب انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ بروقت واپس نہ جا سکے تو ان کا ورک پرمٹ منسوخ ہو سکتا ہے اور انہیں دوبارہ اس خلیجی ملک میں داخل ہونے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف معظم علی تک محدود نہیں، بلکہ کئی ایسے پاکستانی شہری سامنے آئے ہیں جو بیرون ملک کام کے بعد چھٹی گزارنے پاکستان آئے تھے، لیکن واپسی پر انہیں سفر کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
حکام کا مؤقف
دوسری جانب، محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا کہنا ہے کہ کسی بھی شہری کو بلاوجہ بیرون ملک جانے سے نہیں روکا جا رہا۔ ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ مصطفیٰ جمال قاضی نے وضاحت کی کہ حالیہ دنوں میں متعدد پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے سبب مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا، جس کے بعد ان کے نام پی سی ایل میں شامل کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جانب سے یہ شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ کچھ پاکستانی اپنے پاسپورٹ کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر کچھ افراد کو سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر میجر (ر) بیرسٹر محمد ساجد مجید کے مطابق، حکومت پاکستان نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان میں سوشل میڈیا پر ممنوعہ مواد کی تشہیر، کسی کالعدم تنظیم سے وابستگی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہیں۔
بیرسٹر ساجد نے ایک اور اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے پاکستانی کارکنان پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس حاصل نہیں کرتے، جو ان کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ اگر کوئی شخص قانونی طریقے سے بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے کے باوجود اس انشورنس کو یقینی نہیں بناتا تو ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں اس کا نام پی سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد وہ سفر سے قاصر ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن کی انشورنس اسکیم کے تحت صرف 2500 روپے میں 10 لاکھ روپے تک کا تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے، جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
مزید برآں، حساس ادارے سوشل میڈیا یا دیگر پلیٹ فارمز پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی معلومات وزارت داخلہ کو فراہم کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے شہریوں کے نام خاموشی سے پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں اور انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دی جاتی۔