اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو سال ہا سال تک پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھاتا رہا۔پھر ایک دن وہ خود لاپتہ کر دیا گیا۔کئی مہینے تک اس کی بیوی بچوں کو خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں ہے ؟پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس پر پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت بنائی گئی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
اس عدالت نے قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزام میں اس سویلین کو چودہ سال قید کی سزا سنائی۔عمران خان کے دور حکومت میں ایک فوجی عدالت سے سز ا پانے والے اس سویلین کا نام ادریس خٹک ہے جو آج بھی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہے۔ادریس خٹک کی کہانی کے ساتھ کئی اور کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ اب تو عمران خان اور ان کے کئی ساتھیوں کی کہانیاں بھی ادریس خٹک کی کہانی کے ساتھ جڑنے والی ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے کئی دیگر وابستگان کے خلاف بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان ہو چکا ہے۔آج بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ کیا ہوگا؟ یہ سوال پوچھنے والوں کو چاہئے کہ پتہ کریں ادریس خٹک کے ساتھ کیا ہوا؟جواب مل جائے گا ادریس خٹک نے روس کی سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی سے 1994ء میں بشری علوم میں پی ایچ ڈی کی۔وہ چاہتے تو وہیں روزگار حاصل کر سکتے تھے لیکن پاکستان واپس آگئے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع ہوگئے، بہت سے مقامی لوگوں کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیکر غائب کیا جانے لگا تو ادریس خٹک نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانا شروع کی۔ انہوں نے قبائلی علاقوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کو انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے نوٹس میں لانا شروع کیا۔
وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے عالمی اداروں کے ساتھ کام کرنے لگے۔ وہ بہت سے غیر ملکی سفارتکاروں اور صحافیوں کو بھی ملتے تھے لہٰذا انکی یہ ملاقاتیں انہیں کھٹکنے لگیں جو پاکستانی شہریوں کو لاپتہ کرکے بھی کسی پاکستانی قانون کی پکڑ میں نہیں آتے ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والوں کو اکثر غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے ۔ادریس خٹک کو بھی غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر جیل میں ڈالنے کا فیصلہ ہو گیا۔
ادریس خٹک پر اس غصے کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے نصیب اللہ محسود اور طاہر داوڑ کے قتل پر احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریوں کی تفصیلات اکٹھی کرنی شروع کر دیں۔لورالائی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ارمان لونی کے قتل پر بھی انہوں نے آواز اٹھائی۔ گلالئی اسماعیل اور عبداللہ ننگیال گرفتار ہوئے تو ادریس خٹک نے ان کے اہلخانہ سے بھی رابطہ کیا لہٰذا انہیں جیل بھجوانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
13نومبر 2019ء کو وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ پشاور سے اسلام آباد آ رہے تھے۔صوابی انٹرچینج پر انہیں ڈرائیور سمیت اغواء کر لیا گیا۔ دو دن بعد 15نومبر کو ڈرائیور کوچھوڑ دیاگیا لیکن ادریس خٹک لاپتہ رہے، ان کے اہلخانہ نے بہت بھاگ دوڑکی لیکن کچھ پتہ نہ چلا کہ ادریس خٹک کدھر گئے ؟لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے اس کارکن کو بھی لاپتہ کردیا گیا۔
وکیل رہنما لطیف آفریدی نے ادریس خٹک کی بازیابی کیلئے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔جسٹس وقار سیٹھ نے ادریس خٹک کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تو 16جون 2020ء کو وزارت دفاع نے تسلیم کیا کہ ادریس خٹک اسکی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو رہی ہے۔اس دوران جسٹس وقار سیٹھ پراسرار موت کا شکار ہو گئے۔
لطیف آفریدی بار بار پشاور ہائیکورٹ میں ادریس خٹک پر سول عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی استدعا کرتے رہے لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ 2020ء میں لطیف آفریدی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بن گئے انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا کہ سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمات نہ چلائے جائیں لیکن انہیں کسی خط کا جواب نہ دیا گیا۔دسمبر 2021ء میں فوجی عدالت نے ادریس خٹک کو جاسوسی کے الزام میں چودہ سال قید کی سزا سنا دی ۔
فوجی عدالت کا تحریری فیصلہ سامنے آیا تو پتہ چلا کہ ادریس خٹک پر پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور انہیں جاسوس ثابت کرنے کیلئے صرف اتنا لکھا گیا کہ انہوں نے 2007ء میں ایم آئی سکس (برطانوی خفیہ ادارہ ) کے ایجنٹ مائیکل سیمپل کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ مائیکل سیمپل کی کہانی یہ ہے کہ ان کا تعلق آئرلینڈ سے تھا اور وہ یورپی یونین کے مشن کے ساتھ بطور سفارتکار وابستہ تھے۔ 2007ء میں انکی تعیناتی کابل میں تھی یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور یورپی ممالک افغان طالبان اور حامد کرزئی کے درمیان مفاہمت کے امکانات تلاش کر رہےتھے اور طالبان رہنمائوں سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا وہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں؟
انہی دنوں حامد کرزئی کی حکومت نے مائیکل سیمپل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر افغانستان سے نکال دیا تھا ۔افغان میڈیا نے انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا کیونکہ وہ پاکستانی فوج کے ایک سابق افسر میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کے داماد تھے۔جنرل مٹھا پاکستانی فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے بانی تھے ۔
ان کا تعلق میمن فیملی سے تھا قیام پاکستان کے بعد وہ ممبئی سے پاکستان آگئے اور ایک بنگالی خاتون سے شادی کرلی۔ 1972ء میں صدر پاکستان بننے پر ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گل حسن کے کہنے پر انہیں فوج سے نکال دیا کیونکہ وہ 1971ء کے فوجی آپریشن کے ناقد تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں ایک کتاب ’’بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘‘لکھی، ان کے داماد مائیکل سیمپل کو فوجی عدالت کے فیصلے میں ایم آئی سکس کا ایجنٹ قرار دیا گیا تو سوال اٹھایا گیا کہ مائیکل سیمپل آئرش شہری ہے، یہ کہاں ثابت ہوا کہ وہ برطانیوی جاسوس ہے؟
لطیف آفریدی نے فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی لیکن جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس ارشد علی نے فوجی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ کچھ عرصہ کے بعد لطیف آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ بار کے اندر قتل کر دیا گیا اور یہ قتل خاندانی دشمنی کا نتیجہ قرار دیا گیا ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وزیر اعظم عمران خان کو بار بار خط لکھے کہ ایک جمہوری حکومت کے دور میں سویلینز پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا درست نہیں لیکن عمران خان نے سنی ان سنی کر دی۔ اب عمران خان پر بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا کاش کہ عمران خان بطور وزیر اعظم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پوچھتے کہ پاکستان اور برطانیہ میں کون سی جنگ چل رہی تھی اور برطانیہ کو پاکستانی فوجی کے متعلق جاسوسی کیلئے ادریس خٹک کو استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
ادریس خٹک کی سزا پر عمران خان خاموش رہے اور اگر عمران خان کو بھی فوجی عدالت سے سزا مل گئی تو ان کے سیاسی مخالفین بہت خوش ہونگے۔ کل کو ان سیاسی مخالفین پر بھی ایسے ہی مقدمات چل سکتے ہیں اور عمران خان خوش ہونگے۔