اسلام آباد( آن لائن ) وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے حکومت کوئی منی بجٹ نہیں لائے گی ، 8 سے 10 سال میں ترقی کی شرح 20 فیصدتک لے جانے کا ہدف ہے، درآمدات اور برآمدات کے تناسب کو کنٹرول کرنا ضروری ہے، گروتھ بجٹ پیش کر دیا، معاشی ترقی کے ثمرات غریب تک پہنچائیں گے۔ غریب کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہے وہ ملک کے
کسی کونے میں ہو، موبائل کالز، انٹرنیٹ، اور ایس ایم ایس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہو گا ۔ ہمیں ڈالر کما نے کیلئے برآمدات کو بڑھانا پڑے گا، غریب افراد کو چھوٹے کاروبار کیلئے 5لاکھ بلا سود اور ہر خاندان کو چھت کی فراہمی کیلئے 20 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ستمبر تک معاملات طے ہوجائیں گے، ایف بی آر کو ہم ٹھیک کریں گے، ہر غریب گھرانے کو چھت فراہم کی جائے گی او ر اس کیلئے 20 لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کیئے جائیں گے برآمدات بڑھا کر ہمیں ڈالر کمانے ہیں غریب لوگوں کوپیشہ وارانہ تربیت فراہم کی جائے گی کاروبار کے آغاز کیلئے ہر شہری کو 5لاکھ تک قرض فراہم کریں گے 8سے 10سال تک پائیدار ترقی کی شرح 20فیصد تک لے جانا ہدف ہے ، ہمارا چیلنج ہے کہ گروتھ کو مستحکم کر نا ہے غریب پر سیاست نہیں کر نی غریب غریب ہے مستحکم اور پائیدار ترقی کیلئے پیداور بڑھانا ضروری ہے، چھوٹے قرض داروں سے 99فیصد ریکوری کا تجربہ کر چکے ہیں پائیدار ترقی
کیلئے مستقبل کو مدنظر رکھ کر فیصلے کیئے ہیں ۔ ٹیکس دینے والوں کے مزید سہولیات فراہم کریں گے ، پہلے مرحلے میں 40لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کریں گے ، غریب گھرانوں میں ایک شخص کو تربیت فراہم کرین گے ، ہفتہ کو وفاقی وزراء کے ہمراہ پوسٹ بجٹ نیوز کانفرنس کر تے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ا للہ کے فضل سے
ہر چیز دنیا میں ہوتی ہے، کل اس نے ہمیں وسیلہ بنایا اور ہم گروتھ بجٹ پیش کیا، اس حکومت کا عزم ہے کہ غریب عوام کو ٹریکل ڈاؤن اثرات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا، لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی 74 سالوں میں جو نہیں ہوا وہ ہورہا ہے،ہم نے یہ سوچا وسائل جو تقسیم ہونے ہیں وہ بینکنگ کے شعبے میں ہیں،کمرشل بینک نہ تو غریب کے گھر
کے نزدیک ہوتے ہیں اور نہ چھوٹے کاشتکار کے نزدیک،20 سال پہلے شعیب سلطان نے این اے آر سی کو شروع کیا، این اے آر سی کو 60 کروڑ روپے غریب عوام کیلئے دیا، ڈاکٹر یونس نے بنگلہ دیش میں گرامین بینک بنایا،اخوت نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیئے، اگلے بجٹ میں تھوک فنانسنگ بینک سے کرائیں گے،اخوت اور
آر ایس پیز کی ریکوری 97 فیصد تک ہے، 40 لاکھ گھرانوں کو چھوٹے قرضوں کی فراہمی پہلے مرحلے میں اس پروگرام کے تحت ہوگی،اس میں سیاست نہیں ہوگی ملک کے ہر کونے کے شہری ہو شامل کیا جائیگا،2 لاکھ روپے سالانہ چھوٹے کسانوں کو حکومت فراہم کرے گی،5 لاکھ روپے کے بلاسود قرضے تین سال کیلئے غریب افراد کو
فراہم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہر خاندان کو چھت کی فراہمی کیلئے 20 لاکھ روپے دیئے جائیں گے، صحت کارڈ کے ذریعے صحت کے مسائل حل کئے جائیں گے، سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات میسر نہیں ہے، صحت کارڈ کے ذریعے نجی ہسپتال میں انشورنس کے ذریعے غریب علاج کروا سکتا ہے،غریب طبقہ کو ہنر فراہم کرنے کیلئے
اقدامات کئے جائیں گے، 20 سے 30 سال تک پائیدار گروتھ کے بغیر خوشحالی ناممکن ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جب ہماری پوزیشن کمزور تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، اب ہمیں ڈالر کمانا اس کیلئے برآمدات کو بڑھانا پڑے گا، برآمدات کو 8 فیصد سے 20 فیصد اضافہ تک لیجانا پڑے گا، ہمارے سیونگ ریٹ 15 فیصد اور سرمایہ کاری ریٹ 16 فیصد
تک ہے،ہمارے پاس ریونیو نہیں ہے گروتھ کہاں سے ہوگی، ریونیو کو بلحاظ جی ڈی پی 20 فیصد تک لیجانا ہوگا، 8 سالوں میں حکومت اس کو 20 فیصد لیجائے گی،ہم نے رواں مالی سال 4700 ارب محصولات جمع کرنے کا ہدف ایف بی آر کو دیا ہے،اگلے مالی سال کیلئے 5800 ارب روپے کیا ہے،لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ 5800 ارب روپے کیسے جمع
کیا جائے گا، 500 ارب روپے کا معاملہ ہے اور ہم پالیسی اقدامات کریں گے،ہمارے پاس الیکٹرانک اعدادوشمار موجود ہیں ان لوگوں کے پاس جائیں گے ٹیکس لیں گے،آئی ایم ایف کے ساتھ یہی مذاکرات ہورہے ہیں کہ ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگے گا، پوائنٹ آف سیل کے ذریعے ڈیڑھ ارب کی سیل سامنے آئی ہے یہ 1500 ارب روپے سے زیادہ ہے،
کئی لوگ اپنی سیلز کے درست اعدادوشمار نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے تاجروں کو پوائنٹ آف سیل کے تحت نظام میں لائیں گے،چھوٹے تاجروں کیلئے انعامی مقابلہ شروع کریں گے اور 25 کروڑ کے ماہانہ انعامات دیں گے،اس کو آہستہ آہستہ 25 کروڑ سے بڑھا 1 ارب تک پہنچائیں گے،یہ سلسلہ یکم جولائی سے شروع ہوگا، تمباکو سمیت چار ایریاز پر
ٹریک اینڈ ٹریس کا نظام لارہے ہیں، انفورسمنٹ کے ذریعے 160 ارب روپے رواں مالی سال اکھٹے کئے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ 40 لاکھ غریب خاندانوں تک سستے قرضے پہنچائیں گے جبکہ جبکہ اخوت اور احساس پروگرام کے ذریعے غریبوں کو 3 لاکھ روپے تک کے قرضے دیں گے۔ گزشتہ روز گروتھ والا بجٹ پیش کیا گیا ہے
اور بجٹ میں غریب عوام کا احساس کیا گیا۔۔وفاقی وزیر نے کہا کہ غریب کے ساتھ سیاست نہیں کرنی اور 5 لاکھ روپے کا بغیر سود قرض 3 سال کے لیے دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس فسکل اسپیس نہیں ہوتی، کمرشل بینک غریب عوام اور چھوٹے کاشتکاروں کے ساتھ ڈیل کرنا نہیں جانتے۔ ملک کے ذرائع بینکوں کے پاس ہوتے ہیں حکومت
کے پاس نہیں اور کمرشل بینک کبھی عام آدمی اور کاشتکار کے قریب نہیں ہوتے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں شرح نمو 3 اعشاریہ 94 فیصد مقرر کرنے کا ہدف ہے۔ اپریل 2021 میں 800 ملین ڈالر سرپلس تھا۔ آئندہ مالی سال 500 ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کریں گے، بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے نان فائلر تک پہنچ جائیں گے،
تمام بڑے اسٹورز پر سیلز ٹیکس لگا دینا ہے، صارفین پکی پرچی لیں گے تو انعام دیں گے، وزیر خزانہ نے کہا کہ جب ہماری پوزیشن کمزور تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے ہمیں ڈالر کمانا اس کیلئے برآمدات کو بڑھانا پڑے گا برآمدات میں 20 فیصد گروتھ کی ضرورت ہے ہمارے سیونگ ریٹ 15 فیصد اور سرمایہ کاری ریٹ 16 فیصد تک ہے،
ہمارے پاس ریونیو نہیں ہے گروتھ کہاں سے ہوگی،ریونیو کو بلحاظ جی ڈی پی 20 فیصد تک لے جانا ہو گا۔رواں مالی سال 4700 ارب محصولات جمع کرنے کا ہدف ایف بی آر کو دیا ہے،اگلے مالی سال کیلئے 5800 ارب روپے کیا ہے،لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ 5800 ارب روپے کیسے جمع کیا جائے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ یہی مذاکرات ہورہے ہیں
کہ ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگے گا، پوائنٹ آف سیل کے ذریعے ڈیڑھ ارب کی سیل سامنے آئی ہے یہ 1500 ارب روپے سے زیادہ ہے،بڑے تاجروں کو پوائنٹ آف سیل کے تحت نظام میں لائیں گے،تمباکو سمیت چار ایریاز پر ٹریک اینڈ ٹریس کا نظام لارہے ہیں، رواں مالی سال انفورسمنٹ کے ذریعے 160 ارب روپے رواں مالی سال اکھٹے کئے۔ انہوں نے کہا کہ
ہم فوڈ ڈیفیسٹ ملک بن گئے ہیں اور ہم زراعت پر توجہ سے رہے ہیں،وزیر اعظم کی ہدایت پر زراعت پر حکومت مراعات دے رہی ہے،برآمدات اور سرمایہ کاری کو مراعات دی جارہی ہیں،اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کیلئے مواقع پیدا کررہے ہیں، مراعات کے ذریعے آئی ٹی کی برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا،ہاؤسنگ کے شعبے میں قرضوں پر
مارک اپ ریٹس کو کم کیا گیا ہے، عمران خان نے چھوٹے گھر والوں کو چھوٹ دی ہے اور بڑے گھروں کیلئے 7 فیصد شرح سود ہے،ہاؤسنگ کی وجہ سے 40 سے 42 صنعتوں میں کام ہوگا، توانائی کے شعبے میں ایفی شنسی لائیں گے اور آزاد بورڈ کے ذریعے ڈسکوز کو درست کریں گے،اس کے بعد بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی جائیگی، ہم اس
کو پروگریسو طریقے سے آگے بڑھائیں گے غریب پر بوجھ نہیں ڈالیں گے،قیمتیں بڑھانا درست عمل نہیں ہے وزیر اعظم اس پر واضح موقف رکھتے ہیں،توانائی کو معیشت کا اہم جزو سمجھتے ہیں اور بجٹ میں اس کیلئے خطیر رقم رکھی ہے، ہم نے مالی طور پر توانائی کو مستحکم کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ موبائل کالز، ایس ایم ایس اور
انٹرنیٹ پیکجز پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہو گا،وفاقی کابینہ نے یہ تجویز مسترد کر دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافہ ملازمین کا حق ہے،پے اینڈ پنشن کمیشن کے ساتھ مل کر اس پر کام کریں گے، ڈاکٹر عشرت حسین کی اصلاحات بھی ہیں،مہنگائی کے مقابلے میں تنخواہوں میں زیادہ اضافہ ہونا چاہیے،حکومت توانائی کے شعبے کو 370 ارب روپے
کا انکریمنٹل بجٹ مل رہا ہے،500 ارب روپے تو ان کو ویسے بھی مل جاتے ہیں، اب توانائی کے شعبے کو ایفی شنسی سمیت ریکوریز میں اضافہ کرنا ہوگا، نئے سی ای اوز آرہے ہیں اور وہ نجکاری کی طرف اداروں کو لیجائیں،اگر عالمی مارکیٹ میں قیمتیں نہ بڑھیں تو مہنگائی 8 فیصد سے کم ہوگی،جب تک فوڈ سفیشنٹ نہیں ہونگے عالمی قیمتوں کے
مرہون منت رہیں گے، مڈل مین قیمتوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے کسان سے چیز سستی لیکر مہنگی فروخت کی جاتی ہے، 4 روپے میں پیاز کسان سے خرید کر 20 روپے ہول سیل میں فروخت کیا جاتا ہے۔کسان اور ریٹیلر کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور مڈل مین 500 گنا منافع کماتا ہے،اس کو ریگولیٹ کریں گے اور گڈ گورننس کیلئے کام کریں گے،
کولڈ اسٹوریج بنائیں گے جس مارکیٹ میں ریٹ بڑھیں گے وہاں کاروائی کریں گے، ایف بی آر اصلاحات آپ کے سامنے آجائیں گیں ایف بی آر کو ہم ٹھیک کریں گے، اگر ایف بی آر والے ٹھیک ہونگے تو ہم ٹھیک کریں گے، انکم ٹیکس ہم نے نہیں بڑھایا ان ڈائریکٹ ٹیکسز بڑھائیں ہیں،ٹیکس ریٹ نہیں بڑھایا جارہا ہے پوائنٹ آف سیل سے ٹیکس لیں گے،
چین اور ترکی میں یہی ماڈل اپنایا گیا، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں چھٹا جائزہ جولائی تک چلے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ ستمبر تک معاملات طے ہوجائیں گے حکومت کوئی منی بجٹ نہیں لائے گی ،ٹیکس بڑھانا پروگریسو طریقہ نہیں ہے،پیٹرولیم لیوی کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا، سعودی عرب کے ساتھ ڈیفر پیمنٹ آئل کے حوالے سے
بات چیت مکمل ہوگئی ہے ۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے کہا کہ ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے انقلابی اقدامات کیئے گئے ہیں، ایکسپورٹس انڈسٹری کیلئے خام مال پر ٹیرف کم کیا گیا ہے، انڈسٹریل سیکٹر کیلئے بجلی کے پیک آور ختم کر دیئے گئے ہیں، آٹو انڈسٹری اس وقت آدھی کپیسٹی پر کام کر رہی ہے، تمام انڈسٹری کو پوری کپیسٹی پر چلایا جائے گا،
گلوبل ویلیو چین میں اپنے آٹو سیکٹر کو لانا ہے،اسپیشل اکنامک زون میں ٹرن اوور ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلوں اور سڑکوں سے زیادہ اہم انڈسٹریل زون بنانا ہے،15 سو ایکٹر کا کراچی میں پی ایس ڈی پی کے ذریعے انڈسٹریل زون بنایا جائے گا،سو ارب کے ری فنڈز ایکسپورٹرز کو گزشتہ سال دیئے گئے،سمال اینڈ میڈیم ٹرم انٹرپرائسز کی
تعداد تقریبا 50 لاکھ ہیں،انڈسٹریل سیکٹر میں ہم انجنیئرنگ سیکٹر پر توجہ دے رہے ہیں،اس حکومت کو تاریخی کرنٹ اکاونٹ خسارہ ملا ہے ۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دا ئود نے کہا کہ برآمدی حکمت عملی دو جصہ پر مشتمل ہے، پہلا تو لیدر، ٹیکسٹائل اور روایتی برامدی صنعت ہے، اور دوسرا اہم حصہ نے شعبوں و صنعتوں کو برآمدات کیلئے فروغ دینا ہے
، ٹیکسٹایل برآمدات کو بتدریج بڑھا کر 20 ارب ڈالر تک لے جانے کے ہدف مقرر کررہے ہیں،ٹیکسٹائل میں ویو ایڈیشن پر توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہغیر روایتی شعبوں کو بھی توجہ دے رہے ہیںآئی ٹی، انجییرنگ،موبائل فون اور دوسرے شعبے ہیں، اگلے سال ان پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں،میک ان پاکستان اوردرامدات کے متبادل تیار کرنا ہے،پچھلے
سال خام. مال پر کسٹمز ڈیوٹی کم کی ہیں،اس سال بھی کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں کم کررہے ہیں، اس سے پہلے کبھی پاکستان میں خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی میں اتنی بڑی تعداد کمی نہیں دیکھی اس اقدام سے پاکستان میں کاروباری لاگت کم ہوگی ۔ مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ روایتی ایکسپورٹس سے ہٹ کر نئے سیکٹر بنانا ضروری ہے،رواں سال ٹیکسٹائل سیکٹر
کی 15 ارب کی ایکسپورٹس رہی،آئندہ سال ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کا ٹارگٹ 20 ارب ہے،انجنئرنگ، زراعت، فٹ ویئر، فوڈ پراسیسنگ سیکٹرز کی ایکسپورٹس بڑھانی ہے،میک ان پاکستان سب سٹیٹیوٹس کیلئے ڈیوٹیز میں کمی کی گئی ہے،پاکستان میں خام مال پر کبھی بھی ڈیوٹیز میں اتنی زیادہ کمی نہیں دیکھی،پر امید ہوں ہمارے برآمدات میں اضافہ ہو گا،رواں مالی سال گڈز اور سروسز کی برآمدات 30 ارب ڈالر تک رہ سکتی ہیں آئندہ مالی سال گڈز اور سروسز کی برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر ہے۔