اسلام آباد ( آن لائن) پنجاب کے دو بڑے بیورو کریٹس کے درمیان چپقلش نے رنگ روڈ منصوبے کو گرہن لگا دیا ہے، راولپنڈی اور اسلام آباد کے ارد گرد علاقوں کی سہولت کے لئے ڈیزائن کیا گیا رنگ روڈ منصوبہ موجودہ کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ نے سابقہ کمشنر محمد محمود کو نیچا دکھانے کے لئے معطل کر دیا ہے، رنگ
روڈ منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیر اعظم کے مشیر سید زلفی بخاری پر بھی ملبہ ڈالنے کی تیاری کر لی گئی ہے، 65 کلو میٹر طویل رنگ روڈ منصوبے کے ذریعے راولپنڈی اسلام آباد کو ایک طرف ٹریفک کے دبائو سے بچاناتھا اور دوسری طرف مضافاتی علاقوں اور نئی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو موٹروے اور سی پیک تک آسان رسائی دینا تھا،مصدقہ ذرائع کے مطابق رنگ روڈ منصوبے کو ناکام کر کے خطہ پوٹھوہار سے پی ٹی آئی کو مکمل طر پر ناکام بنانے کی سازش کی جارہی ہے، تحقیقات کے لئے اصول و ضوابط بھی اپنی مرضی کے طے کر لئے گئے ہیں ۔تفصیلا ت کے مطابق جڑواں شہروں کی سہولت کے لئے بنائے گئے رنگ روڈ منصوبے پر اس وقت ناکامی کے سیاہ بادل چھا چکے ہیں ،بنیادی طور پر اس منصوبے کو دو بڑے بیورو کریٹس کی ذاتی چپقلش کی وجہ سے انا کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے ،موجودہ کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ جوکہ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود سے جونیئر ہیں اس منصوبے کو فوری طور پر معطل کر کے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا چکے ہیں، موجودہ کمشنر گلزار حسین شاہ کا موقف ہے کہ پراجیکٹ ابتدائی طور پر چالیس کلو میٹر لمبا تھا اور نیسپاک اس کا کنسلٹنٹ تھا لیکن بعد میں اسے 65 کلو میٹر طویل کر کے علاقے کی دو اہم سیاسی
شخصیات کو نوازا گیا ہے ،کمشنر راولپنڈی براہ راست الزام لگاتے ہیں کہ نووا سٹی انٹر چینج کا اضاضہ کر کے وفاقی وزیر غلام سرورس خان کو فائدہ دیا گیا ہے جبکہ سید زلفی بخاری اور سید توقیر شاہ کی زمینوں کو بھی مبینہ طور پر زمین سے آسمان پر پہنچادیا گیا ہے، قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ اپنی ابتدائی شکل میں صرف 40
کلو میٹر لمبا تھا اور یہ ٹھلیاں انٹرچینج پر جا کر ختم ہو جاتا تھا لیکن سابق کمشنر نے اس کو علاقے کے لئے زیادہ فائدہ مند بنانے کے لئے اس کو65 کلو میٹر یل کیا اور نئی کنسلٹنٹ کمپنی زیرک نے اسے ریڈیو سٹیشن روات سے شروع کرتے ہوئے چک بیلی خان ہوشیال ،اڈیالہ چکری ،مورت اور نیو ائیر پورٹ کے پیچھے سے گھماتے ہوئے
ڈی آئی خان ہکلہ انٹرچینج سے ملایا اور این ایچ اے کے اشتراک سے اسے سی پیک ،فتح جنگ ،ٹیکسلا اور سنگ جانی سے جواڑا گیا اور مزید اس کو آگے بڑھاتے ہوئے مارگلہ روڈ تک توسیع کر دی گئی ۔اس میں 9 انٹرچینج رکھے گئے اور طے پایا کہ کہ سوسائٹی جس کو اس رنگ روڈ سے فائدہ ہوگا وہ اپنے اپنے انٹرچینج پر سرمایہ
کرے گی اور ایک اندازے کے مطابق ہائوسنگ سوسائٹیوں کے 7 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے قومی خزانے کی بچت تھی ،سابقہ کمشنر محمد محمود نے اس منصوبے کی منظوری ایک اعلی سطح اجلاس میں وزیراعلی کے اقتصادی امور کے مشیر سلمان شاہ سے لی تھی لیکن اچانک محمد محمود کو تبدیل کر کے سید گلزار حسین شاہ کو
اس عہدے پر بٹھا دیا گیا ہے تو انہوں نے بولی کے مراحل کو معطل کر دیا ہے جو کہ اپریل میں ہونا تھی اور اسی وجہ سے یہ ایک قومی سطح کا منصوبہ سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے ۔دوسری طرف لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ65 کلو میٹر طویل اس پراجیکٹ کے لئے حکومت پنجاب 60 فیصد زمینیں انکوائر کر چکی ہے اور متاثرین کو ادائیگی
بھی ہو چکی ہے ۔اب چیف سیکرٹری پنجاب نے اس سلسلے میں تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو سابقہ کمشنر اور انکے ساتھ کام کرنے والے ملازمین سے تحقیقات کرے گی ،وزیر اعظم اور وزیراعلی پنجاب نے اگر بروقت ایکشن نہ لیا تو یہ ایک زبردست اور قیمتی منصوبہ انا کی بھینٹ چڑھ جائے گااور اس کا سب سے زیادہ
نقصان وزیر اعظم کی پارٹی کو ہی ہوگا اگر بغور دیکھا جائے اس پراجیکٹ سے غلام سرور خان ،زلفی بخاری اور توقیر شاہ کی نسبت دوسرے کاروباری افراد اور عام شہریوں کو زیادہ فائدہ ہوا ہے کیونکہ اس پراجیکٹ نے نہ صرف زمینوں کو مہنگا کیا ہے بلکہ راولپنڈی اسلام آباد سے منسلک کئی شہروں کی اہمیت میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور عرصہ دراز سے مردہ پڑی ہوئی سوسائٹیاں بھی جاندار ہوگئی ہیں۔