اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )روزے دار کیلیے تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے، اگر تازہ کھجور نہ ملے تو پھر کھجور سے روزہ کھول لے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھول لے۔یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے ثابت ہے، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے سے پہلے تازہ کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے،
اگر تازہ نہ ملتی تو کھجوروں سے روزہ افطار کرتے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چند گھونٹ بھر لیتے تھےابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تازہ کھجوروں ، یا کھجوروں یا پھر پانی سے بالترتیب روزہ افطار کرنے میں بہت ہی باریک فائدہ ہے؛ چونکہ روزہ رکھنے سے معدہ کھانے سے خالی رہتا ہے، چنانچہ جگر کو معدے میں کوئی ایسی چیز میسر نہیں آتی جسے وہ جذب کر کے اعضا کو توانائی پہنچائے، جبکہ میٹھا جگر تک سب سے زیادہ جلدی پہنچتا ہے اور جگر کے ہاں سب سے محبوب بھی ہے،خصوصاً اگر تازہ کھجور کی شکل میں ہو لہذا تازہ کھجور کو جگر فوری جذب کرتا ہے اور تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنے پر جگر کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور پورے جسم میں توانائی فوری طور پر پہنچتی ہے، چنانچہ اگر تازہ کھجور دستیاب نہ ہو تو پھر کھجور اس کے بعد آتی ہے کیونکہ اس میں میٹھا اور بھر پور غذائیت ہوتی ہے، اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر پانی کے گھونٹ معدے کی حرارت ختم کر دیتے ہیں، اس کے بعد معدہ کھانا ہضم کرنے کیلیے بالکل تیار ہوتا ہے اور کھانا صحیح سے کھایا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزہ افطار کرتے ہوئے طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے، اس لیے مسلمان روزہ افطار کرتے ہوئے کھجوروں کی تعداد شمار کیے بغیر ہی ان سے روزہ افطار کر لے۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:طاق عدد میں کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرنا واجب بلکہ سنت بھی نہیں ہے کہ تین ، پانچ، یا سات کھجوریں کھائے، البتہ عید کے دن طاق عدد میں کھجوریں کھا کر عید گاہ جانا ثابت ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر کے دن عید نماز کیلیے جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے جبکہ اس کے علاوہ کسی بھی حالت میں آپ کھجوریں کھاتے ہوئے طاق عدد کا خیال نہیں رکھتے تھے البتہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم تین کھجوروں سے روزہ افطار کرنا پسند کرتے تھے، یا ایسی چیز سے روزہ افطار کرتے تھے جو آگ پر نہ پکائی گئی ہوکچھ اہل علم ہر معاملے میں طاق عدد کو اچھا سمجھتے ہیں، جیسے کہ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:کیا ہر چیز کو استعمال کرتے ہوئے طاق عدد کا خیال کیا جائے گا؟ مثال کے طور پر قہوہ پیتے ہوئے بھی؟ یا صرف ان چیزوں کے متعلق طاق عدد کا خیال کیا جائے گا جن کے بار ے میں واضح صراحت موجود ہے؟تو شیخ نے جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہےکہ:تمام اقوال و افعال میں طاق عدد کا خیال کرنا مسنون ہے۔اسی طرح شیخ عبد الکریم خضیر حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:کیا کھانے پینے میں بھی طاق عدد کا خیال رکھ کر اللہ کی بندگی ہو سکتی ہے؟تو انہوں نے جواب:جی ہاں! طاق عدد کا خیال رکھ کر بھی اللہ کی بندگی ہو سکتی ہے، چنانچہ کھجوریں کھائے تو تین، پانچ، یا سات یعنی طاق عدد میں کھائے؛ کیونکہ اللہ تعالی طاق عدد پسند فرماتا ہےاسی طرح مصنف عبد الرزاق میں معمر، ایوب سے بیان کرتے ہیں وہ ابن سیرین سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی وتر ہے اور وتر پسند فرماتا ہے ایوب کہتے ہیں کہ: ابن سیرین ہر چیز میں طاق عدد پسند کرتے تھے، حتی کہ کھانے پینے میں بھی طاق عدد کا خیال کرتے۔