اسلام آباد(مانیٹرنگ +این این آئی)سینٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو شکست دے کر اپ سیٹ کر دیا۔ سینٹ انتخابات کے بعد اب چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں بھی اپ سیٹ ہونے کی توقع ہے۔ نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق حکمران اتحاد کو کل 47 ارکان کی حمایت
حاصل ہو گئی ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کوسینیٹ میں53 ارکان کی حمایت مل گئی ہے، صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان چیئرمین سینٹ کے لئے کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف نے نئی 18 نشستیں جیتی ہیں جس کے بعد سینٹ میں ان کی تعداد 26 ہو گئی ہے، پیپلز پارٹی سینٹ میں دوسری بڑی جماعت بن گئی ہے اس وقت اس کی 20 نشستیں ہیں، ن لیگ 18 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، بلوچستان عوامی پارٹی 12 نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ واضح رہے کہ سینٹ کی 37نشستوں پر انتخابات کے غیرحتمی و غیر سر کاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ18،پیپلز پارٹی نے آٹھ ، مسلم لیگ (ن)نے پانچ ، بلوچستان عوامی پارٹی نے چھ نشستیں حاصل کرلی ہیں ۔ بدھ کو سینیٹ (ایوان بالا) کی 37 نشستوں پر انتخاب کے لیے خفیہ رائے دہی کے ذریعے پولنگ ہوئی غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 18، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 8، مسلم لیگ (ن) 5، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) 6، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان 2، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) 3، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 2، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل 2 اور آزاد امیدواروں
نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد نے خواتین کی نشست پر مسلم
لیگ (ن) کی امیدوار فرزانہ کوثر کو شکست دی۔ریٹرننگ افسر نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی میں 341 میں سے 340 ووٹ ڈالے گئے، یوسف رضا گیلانی نے 169 جبکہ عبدالحفیظ شیخ نے 164 ووٹ حاصل کیے، پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد نے 174 جبکہ فرزانہ کوثر نے 161 ووٹ لیے، جنرل نشست پر 7 جبکہ خواتین کی نشست پر 5
ووٹ مسترد ہوئے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی، پیپلز پارٹی کی شیری رحمن جنرل نشست پر کامیاب ہوئیں،پیپلز پارٹی کے تاج حیدر جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے، ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے، پیپلز پارٹی کے جام مہتاب ڈہر نے جنرل نشست پر کامیابی
سمیٹی، پی ٹی آئی کے فیصل واڈا نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی، پیپلز پارٹی کے شہادت اعوان جنرل نشست پر کامیاب ہوئے، پیپلز پارٹی کی پلوشہ خان خواتین کی نشست پر کامیاب قرار پائیں، ایم کیو ایم کی خالدہ اطیب خواتین کی نشست پر کامیاب قرار پائیں، پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیاب
ہوئے، پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔بلوچستان سے آزاد امیدوار عبدالقادر جنرل نشست پر کامیاب ہوئے، جے یو آئی کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے، بی این پی (مینگل) کے محمد قاسم نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی، عوامی نیشنل پارٹی کے
امیدوار ارباب عمر فاروق جنرل نشست پر کامیاب ہوئے، بی اے پی کے منظور احمد کاکڑ جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے، بی اے پی کے سرفراز احمد بگٹی نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی، بی اے پی کے پرنس احمد عمر احمد زئی جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے، بی این پی (مینگل) نسیمہ احسان خواتین کی نشست پر کامیاب
ہوئیں، بی اے پی کی ثمینہ ممتاز خواتین کی نشست جیتنے میں کامیاب رہیں، بی اے پی کے سعید ہاشمی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے، جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی حاصل کی، بی اے پی کے دِنیش کمار اقلیتی نشست پر کامیاب قرار پائے۔خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے امیدوار شبلی
فراز جنرل نشست پر کامیاب ہوئے،اے این پی کے ہدایت اللہ جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے،پی ٹی آئی کے لیاقت خان تراکئی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے، پی ٹی آئی کے فیصل سلیم رحمٰن جنرل نشست پر کامیاب ہوئے، پی ٹی آئی کے ذیشان خانزادہ جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے، پی ٹی آئی کے محسن عزیز نے جنرل نشست پر
کامیابی حاصل کی،جے یو آئی کے عطاالرحمن نے جنرل نشست پر کامیابی سمیٹی، پی ٹی آئی کی ثانیہ نشتر نے خواتین کی نشست پر کامیابی حاصل کی، پی ٹی آئی کی فلک ناز خواتین کی نشست پر کامیاب قرار پائیں، پی ٹی آئی کے دوست محمد محسود ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیاب ہوئے، پی ٹی آئی کے محمد ہمایوں خان نے ٹیکنوکریٹ
کی نشست پر کامیابی حاصل کی، پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ اقلیتی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے،ایوان بالا کی ان 37 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے لیے سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد سے مجموعی طور پر 78 امیدوار میدان میں تھے جبکہ پنجاب سے تمام امیدوار گزشتہ ماہ دیگر امیدواروں کی جانب سے
کاغذات نامزدگی واپس لینے یا نااہل ہونے کے بعد بلامقابلہ منتخب ہوگئے تھے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی نگرانی میں ووٹنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا اور بروقت پولنگ کے آغاز کو یقینی بنانے کے لیے ای سی پی کا عملہ صبح سویرے ہی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گیا، پولنگ کا عمل بغیر کسی وقفے کے 5 بجے تک جاری
رہا۔سینیٹ انتخابات کے لیے پولنگ کا وقت شروع ہوتے ہی اسلام آباد کی نشست کے لیے سب سے پہلا ووٹ پاکستان تحریک انصاف کے شفیق آرائیں نے کاسٹ کیا جبکہ ان کے بعد فیصل واڈا نے اپنا ووٹ ڈالا۔بعد ازاں وزیراعظم عمران خان بھی ایوانِ زیریں میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے پہنچے اور ووٹ ڈالا، اس موقع پر
حکومتی اراکین نے نعرے بھی لگائے۔وزیراعظم کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیے۔ادھر الیکشن کے دوران کسی امیدوار یا ووٹر کے پولنگ بوتھ کے اندر
موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد تھی اور اس بارے میں سیکیورٹی عملے کا کہنا تھا کہ پولنگ بوتھ میں موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔سیکیورٹی عملے کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے موبائل فون کو پولنگ بوتھ میں لے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔پارلیمنٹ کا ایوان بالا اب تک 104 قانون سازوں کا ایوان تھا اور ہر رکن استعفیٰ،
نااہلی یا انتہائی غیرمعمولی حالات کو چھوڑ کر 6 سال کی مدت پوری کرتا ہے، یہ تمام اراکین ایک ہی وقت میں منتخب نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے نصف ایک مرتبہ جبکہ باقی کے نصف 3 سال بعد ہوتے ہیں۔سال 2021 میں 52 سینیٹرز (جو 2015 میں منتخب ہوئے تھے) وہ ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ باقی 52 جو 2018 میں منتخب
ہوئے تھے وہ 2024 میں ریٹائر ہوں گے تاہم اس مرتبہ سابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبرپختونخوا سے انضمام کے بعد انتخابات صرف 48 نشتوں پر ہورہے ہیں لہٰذا اس طرح سینیٹ اب 100 اراکین پر مشتمل ہوگا، تمام صوبوں سے 23، 23 اور اسلام آباد سے 4 سینیٹرز ہوں گے جبکہ فاٹا کے باقی 4 سینیٹرز
2024 میں ریٹائر ہوجائیں گے۔صوبوں کی ان 23 نشستوں کو اگر تقسیم کریں تو ان میں 14 جنرل نشستیں، 4 ٹیکنوکریٹس یا علما، 4 خواتین کی مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی رکن کی نشست ہے۔تاہم اس مرتبہ پنجاب میںتمام بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کچھ امیدواروں کو واپس بٹھانے پر رضامندی کے بعد وہاں سے تمام سینیٹر بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ان 11 سینیٹرز میں پی ٹی آئی
اور مسلم لیگ (ن) کے 5، 5 ہیں جبکہ ایک پی ٹی آئی کی اتحادی مسلم لیگ (ق) کا ہے۔اس کے علاوہ اسلام آباد کی 2، سندھ سے 11 جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے 12، 12 سینیٹرز کی نشستوں پر مقابلہ ہوا۔اس مرتبہ پولنگ میں چاروں صوبوں سے عام (جنرل) نشستوں پر 7 اراکین، 2 نشستوں پر خواتین، 2 نشستوں پر ٹیکنوکریٹس کو چْنا گیاجبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے اقلیتی نشست پر ایک، ایک رکن منتخب ہوا۔