کراچی(این این آئی)کراچی میں 3 پولیس تھانوں کی جانب سے سب سے بڑے فراڈ کی تحقیقات کی جا رہی ہے، جس میں نام نہاد کار فنانسنگ فرم چلانے والا ایک جوڑا سینکڑوں صارفین سے کروڑوں روپے لوٹنے کے بعد اپنے دفاتر بند کرکے غائب ہوگیا۔بٹ اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال، طارق روڈ اور
ڈی ایچ اے میں 2 سال کے دوران تین برانچز کھولی گئیں۔ شہر کے 3 تھانوں میں اب تک 14 ایف آئی آر مالکان کے خلاف درج کی جا چکی ہیں جس میں سے 7 ایف آئی آر عزیز بھٹی پولیس اسٹیشن، 5 فیروزآباد اور 2 ڈیفنس پولیس اسٹیشن میں درج کی گئیں۔کمپنی نے او ایل ایکس اور فیس بک اکائونٹ پر اشتہار پوسٹ کرکے صارفین کو اپنی طرف راغب کیا۔ کمپنی نے صارفین کو 5 فیصد شرح سود پر پسند کی گاڑیاں خریدنے کی پیش کی۔ گاڑی کی خرید کے لیے 5 فیصد شرح سود پر قرض صارفین کے لیے بہت زیادہ پرکشش تھا کیونکہ عام طور پر بینکوں کی جانب سے 11 فیصد شرح سود پر گاڑیوں کے لیے قرض دیا جاتا ہے۔کمپنی نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ کاغذی کارروائی کے لیے انکی 3 برانچز میں سے کسی ایک میں جائیں۔برانچ پہنچنے پر درخوست گزار کو کہا جاتا تھا کہ وہ سب سے پہلے انکوائری افسر سے ملاقات کرے جہاں افسر رہائش وغیرہ کی تفصیلات حاصل کرنے کے بعد انہیں منیجر کے پاس بھیجتا تھا۔کمنپی کے ساتھ ڈائون پیمینٹ کی رقم طے ہونے کے بعد درخواست گزار کی جانب سے باقاعدہ معاہدے پر دستخط کیے جاتے تھے۔ انکوئری افسر درخواست گزار کی اسناد اور 2 ضامن کی تصدیق کرتا تھا۔معاہدے کے مطابق ڈائون پیمینٹ کے بعد تصدیق کا عمل مکمل ہونے میں 15 دن کا وقت لگتا تھا اور
اگر کوئی درخواست گزار تصدیق کے آغاز سے پہلے ہی معاہدے کو منسوخ کرتا تھا تو اس کی ڈائون پیمینٹ سے 26 فیصد کی کٹوتی کی جاتی تھی۔معاہدے میں گاڑی کی ڈیلوری اور قسط کی ادائیگی سے متعلق بھی کچھ دیگر شرائط کا تذکرہ تھا لیکن ڈائون پیمینٹ کی رقم کے بعد معاملہ آگے نہیں بڑھتا تھا۔دھوکے بازی کا شکار ہونے والے
لیاری کے رہائشی نوید کے مطابق 22 اگست 2020 کو انہوں نے میرا گاڑی کی بکنگ کروائی جس کے لیے ڈائون پیمینٹ کی صورت میں ایک لاکھ روپے جمع کروائے۔ اس گاڑی کی کل قیمت 12 لاکھ روپے تھی لیکن کمپنی اس بات پر اصرار کرتی رہی کہ معاہدے میں شامل ضامن (گرانٹر)ٹھیک نہیں ہے۔نوید نے کہاکہ گاڑی کے حصول
کے لیے میں نے کئی ضامن بدلے لیکن کمپنی ہر ضامن کو غلط قرار دیتی تھی۔ تاہم معاملہ حل نہ ہونے پر جب 15 جنوری 2021 کو طارق روڈ پر واقع کمپنی کی برانچ پہنچا تو دفتر بند تھا۔گلزار ہجری کے رہائشی ابو محمد فہد سید کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ابو فہد محمد سید نے بتایا کہ انہوں نے 31 ستمبر 2020 کو 24 لاکھ روپے کی
ہونڈا سٹی گاڑی کی بکنگ کروائی جس کے لیے ایک لاکھ روپے کی ڈائون پیمینٹ کی لیکن کمپنی یہی کہتی رہی کہ آپ کا ضامن ٹھیک نہیں۔انہوں نے بتایا کہ تمام تقاضے پورے کیے جانے کے بعد جب ضامن کی منظوری لینے کی ضرورت تھی تب انہوں نے میری فائل میں کچھ غلطیاں ظاہر کر دیں۔ 19 جنوری 2021 کو ڈائون پیمینٹ کی
واپسی کے لیے طارق روڈ برانچ پہنچا تو دیکھا دفتر بند ہے۔کمپنی کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ کمپنی نے اپنی پہلی برانچ گلشن اقبال میں کھولی جس کے بعد طارق روڈ اور ڈی ایچ اے میں برانچز کھولی گئیں۔ ابتدائی طور پر، بلاول خان بلیدی نامی ایک شخص کمپنی کے معاملات چلاتا تھا لیکن بعد میں وہ اسے
ریان بٹ کے حوالے کرکے چلا گیا۔ ریان بٹ نے دفتر میں کام کرنے والی لڑکی وانیا سے شادی کرلی اور تب سے یہی جوڑا تینوں برابچز کے معاملات دیکھ رہا تھا۔ملازم، جس نے تمام متاثرین کا ریکارڈ رکھنے کا دعوی کیا ہے نے بتایا کہ کمپنی نے 500 سے زائد افراد سے ایک لاکھ روپے لیے لیکن کسی کو بھی گاڑی فراہم نہیں کی۔ملازم
کے مطابق تین برانچز میں کل 56 ملازمین کام کرتے تھے اور مالکان نے ملازمین کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ گاڑی کی بکنگ پر کمیشن دینے کی بھی پیشکش کر رکھی تھی۔ میں ماہانہ 25ہزار روپے تنخواہ لیتا تھا جبکہ فی گاڑی کی بکنگ پر ہزار روپے کمیشن بھی لیتا تھا۔ملازم نے بتایا کہ جب پچھلے ماہ دفتر بند دیکھا تو میں نے ریان
اور وانیا سے فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن دونوں کے فونز بند تھے۔ ملازم کے مطابق مالکان فرار ہوگئے جبکہ متاثرہ افراد پولیس کے پاس گئے اور مقدمات ہمارے خلاف درج کر لیے گئے۔عزیز بھٹی تھانے کے اسٹیشن انویسٹی گیشن آفیسرانسپکٹر فریدالدین نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بٹ اینڈ سنز کے خلاف 7 مقدمات ہمارے
تھانے میں درج ہوئے ہیں۔ بہرحال، انہوں نے اس پر فی الاحال مزید بات نہیں کی۔فیروزآباد کے اسٹیشن انویسٹی گیشن آفیسر انسپکٹر طارق بیگ نے بتایا کہ تھانے میں 5 مقدمات درج ہوئے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی سے کیس سے متعلق پوچھ گچھ ہوتی ہے۔کمپنی چلانے والا جوڑا شہر چھوڑ کر روپوش ہوگیا ہے تاہم پولیس نے کچھ دن پہلے ہی عملے کے 3 افراد کو ٹریس کرکے گرفتار کیا ہے۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کرکے عدالتی تحویل پر بھیجا گیا تھا جنہوں نے بعد میں ضمانت حاصل کرلی۔