اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)توقع ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے کی جانے والی کوششوں میں سست روی تقریباً ایک سے ڈیڑھ ماہ تک جاری رہے گی جس کی وجہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی 31 جنوری کو پارلیمنٹ سے استعفوں اور لانگ مارچ کی دھمکی ہے۔
آئی ایم ایف نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ دوسری جانب، حکومت نے سخت معاشی اقدامات پر عمل کیلئے کورونا کی وبا کو جواز بنا لیا ہے۔ روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف مل کر دوسرے جائزے کیلئے کام کر رہے ہیں تاکہ توسیعی فنڈ کی سہولت (ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلیٹی) کے تحت پاکستان کو 450 ملین ڈالرز کی تیسری قسط مل سکے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، حکومت نے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں تین روپے تیس پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا ہے جس کا آسان سا مطلب یہ ہوا کہ حکومت بجلی کے صارفین پر تین سو ارب روپے کا بوجھ سالانہ بنیادوں پر ڈالنے والی ہے۔ رابطہ کرنے پر وفاقی سیکریٹری فنانس کامران افضل نے جواب دیا، ہم آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جائزے کے عمل کی تکمیل کیلئے کام کر رہے ہیں اور اس معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
تاہم، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت تین بڑی شرائط کی بنیاد پر آئی پی پیز کے ساڑھے چار سو ارب روپے کی بقایہ جات ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ شرائط کیسے پوری ہوں گی لیکن آئندہ مہینوں کے د وران سپلائی میں درپیش رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے ملک کے طاقتور حلقے کہہ رہے ہیں کہ یہ ادائیگی کلیئر کی جائے تاکہ گردشی قرضوں کا بوجھ بجلی کی پرسکون ترسیل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔