اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /آئن لائن)بی بی سی میزبان نےاسحاق ڈار سے سوال کیا کہ نواز شریف بھی آپ کی طرح میڈیکل گراونڈ پر لندن میں ہیں؟ نجی ٹی وی کے مطابق رہنما مسلم لیگ ن نے جواب میں نیب پر دوران حراست بدسلوکی کا الزام عائد کیا جس پر اینکر نے اسحاق ڈار کو ٹوک دیا اور کہا کہ نواز شریف تو سزا یافتہ مجرم ہیں۔اسحاق ڈار کی سپریم کورٹ فیصلے پر
تاویلیں دینے کی کوشش پر بھی اینکر نے اسحاق ڈار کو آئینہ دکھا دیا اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر بھی مفرور سابق وزیر خزانہ کی تصیح کردی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ فوج پر بطور ادارہ جمہوری عمل کو کمزور بنانے کا الزام عائد نہیں کرتے بلکہ یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے،یہی لوگ جو پاکستان میں مارشل لا نافذ کرتے ہیں۔ بی بی سی کوایک انٹرویو میں اسحاق ڈار نے نواز شریف کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے خلاف بیانات کے بارے میں کہا کہ یہ حقیقت ہے، ڈیپ سٹیٹ کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے،یہ صرف ہم یہ نہیں کہہ رہے، بلکہ عالمی رپورٹس کہہ رہی ہیں، ہیلری کلنٹن بھی ڈیپ سٹیٹ سے متعلق پاکستان کی مثال دے چکی ہیں۔ بات ڈان لیکس سے شروع ہوئی، نواز شریف جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں اس میں کوئی برائی ہے؟ برطانیہ بھی تو جمہوریت اور جمہوری اقدار کی حمایت کرتا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فوج کا پورا ادارہ نہیں، ہمیں کچھ افراد کی بات کرنی ہو گی۔ پورے ادارے کی بات نہیں ہو رہی۔ ہمیں اس میں فرق کرنا ہو گا۔ یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے جو پاکستان میں مارشل لا لگاتے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اگر یہ بغیر کسی شبہ کے اب ثابت ہو گیا ہے۔ کوئی تو ہے جو منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
یہ ہم نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کے اداروں اور ڈیپ سٹیٹ سے مسائل نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وہ ایسا کیوں کہیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ میرے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے، پاکستان میں میرا گھر ہے جو موجودہ ہے جو حکومت نے مجھ سے چھین لیا ہے۔گذشتہ 73 برسوں کے دوران مختلف آمریت کے
ادوار میں کرپشن کے بیانیے کو بار بار استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس مرتبہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پوشیدہ آمریت ہے، ایک جوڈیشل مارشل لا ہے۔ اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ میرے پر لگائے گئے الزام بے بنیاد ہیں، میرا نام پاناما پیپرز میں نہیں تھا۔ میں اپنے خلاف الزامات کے خلاف
ثبوت پیش کر سکتا ہوں۔ میرا نام ان دستاویزات میں کہیں درج نہیں ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام کیا گیا تھا، جو سپریم کورٹ کی جانب سے ماورائے عدالت اقدام تھا۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں دو فوجی افسران بھی شامل تھے جو دراصل اس پوری ٹیم کی نگرانی کر رہے تھے۔جے آئی ٹی میں میرے خلاف الزام یہ تھا کہ میں نے سنہ 1981 سے سنہ 2001 تک 20 سال کے
عرصے میں پاکستان میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے۔ میں برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹننٹ ہوں، جب میں برطانیہ میں تھا تو میں نے کبھی اپنے گوشوارے جمع کروانے میں کوتاہی نہیں کی۔ لہذا میرے خلاف یہ نہایت غلط الزام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ’میں شفافیت پر یقین رکھتا ہوں اور میں نے اپنے تمام اثاثے اپنے گوشواروں میں ظاہر کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا دبئی اور لندن میں جائیدادوں کے الزامات درست نہیں۔ میرے بچے 17 سال سے کاروبار کر رہے ہیں جو اداروں کے ریکارڈ میں ہے، میرے بچے آزاد ہیں اور میری سرپرستی میں نہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے تفتیش سے کوئی مسئلہ نہیں،پاکستان واپس آنے کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ تقریباً تین سال سے لندن میں ہیں اور ان کے وکلا پاکستان میں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ انسانی حقوق کہاں ہیں؟ نیب کی حراست میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ درجنوں لوگوں کو مار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ساری معلومات گوگل کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ میرے اثاثوں سے متعلق ساری معلومات ٹیکس دستاویزات میں درج ہیں اور یہ لاپتہ نہیں۔ تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ کچھ الگ ہے۔
نواز شریف سویلین بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان کی حکومت کی کیا ساکھ ہے؟ دنیا دھاندلی اور چوری شدہ انتخابات دیکھ چکی ہے۔ ہم نے تجربہ کیا ہے، سنہ 2018 میں رائے عامہ کے تمام جائزوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسلم لیگ نواز جیت جائے گی۔ لیکن مبصرین اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انھیں تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ ہم سے الیکشن چْرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فافین کا نیٹ ورک عالمی سطح پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ اس الیکشن کو چْرایا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ عمران خان کے 21 ویڈیو کلپس ایسے ہیں جن میں وہ فوج، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کو بدنام کر رہے ہیں،گزشتہ سال امریکہ میں انھوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی اسامہ بن لادن کی ذمہ دار ہے۔
جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو انھیں ’طالبان خان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیا ہم یہاں ان کی کارکردگی اور ہماری کارکردگی کا موازنہ کرنے نہیں آئے؟‘اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف وزیر اعظم یا (عام شہری کی) حیثیت سے فوج کے مخالف نہیں۔ وہ کچھ افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہیں، یہ چیز اعلیٰ قیادت میں شروع ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کی تاریخ سے آپ واقف ہوں گے۔ ہم نے ایف اے ٹی ایف میں
پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف اگر حلف اور آئین کی خلاف وزری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے ۔انہوں نے کہا کہ ’ہم پاکستانیوں کے مفاد میں ہی یہ سب کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں دگنی آمدن جمع ہوئی، کم ترین مہنگائی، سب سے کم سود کی شرح، جنوبی ایشیا میں سٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی، سب سے مستحکم کرنسی، مجموعی قومی پیداوار کی
بلند ترین سطح مغربی اداروں نے ہماری تعریف ہی کی۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان 2030 میں جی 20 کا حصہ بننے جا رہا تھا اور ہم جلد ایسا ممکن بنانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ’ہم پْرامید تھے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، ہم پاکستان میں دہشت گردی سے لڑ رہے تھے، میکرو اکانومک انڈیکیٹرز میں بہتری آئی تھی۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن انھوں نے اب تک
ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو بیروزگار بنا دیا ہے۔پاکستان میں اس وقت ایک فاشسٹ حکومت ہے، ہمارا حتمی مقصد جمہوریت کی بالادستی، فری اینڈ فیئر الیکشن اور قانون پر عمل درآمد ہے۔‘انہوں نے کہا ’تمام اداروں کو پاکستان کے آئین کی حدود میں کام کرنا ہو گا۔ ہم اس سے بہت خوش ہوں گے، ایسا وزیر اعظم جو ڈی جی ایف آئی اے کو ناموں کی فہرست دے کر کہے کہ ’جاؤ انھیں گرفتار کرو‘۔ یہ کیسی گورننس ہے ۔