جب مسلح افراد نے ہمیں گاڑی سے اتار کر سر نیچے کرنے کو کہا تو میں سمجھا کہ یہ زندگی کا آخری لمحہ ہے، پروفیسر ڈاکٹر کے تہلکہ خیز انکشافات

29  ‬‮نومبر‬‮  2020

کوئٹہ (آن لائن)جب مسلح افراد نے ہمیں گاڑی سے اتار کر سر نیچے کرنے کو کہا تو میں سمجھا کہ یہ زندگی کا آخری لمحہ ہے لیکن گاڑی سے اتارنے کے بعد دیر تک خاموشی چھائی رہی تو میں نے ہمت کی اور اپنی آنکھوں سے کوٹ ہٹایا۔ وہاں کوئی نہیں تھا اور ہم پہاڑوں کے درمیان ایک ویران علاقے میں تھے۔یہ کہانی ہے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ براہوی کے اسسٹنٹ پروفیسر

ڈاکٹر شبیر شاہوانی کی جنھیں سینیچر کو یونیورسٹی کے دو دیگر اساتذہ کے ہمراہ مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ لیکن اندازاً دو گھنٹے بعد ان سمیت دو کو چھوڑ دیا گیا جبکہ تیسرے شخص اب بھی لاپتہ ہیں۔یہ لاپتہ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی ہیں جن کے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ حکومتِ بلوچستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔ڈاکٹر شبیر شاہوانی نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے تحت بی اے کے امتحان چل رہے ہیں اور یونیورسٹی کی جانب سے شعبہ براہوی کے سربراہ ڈاکٹر لیاقت سنی، شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر نظام شاہوانی اور ان کی ڈیوٹی امتحانات کی ویجیلینس کے سلسلے میں خضدار میں لگائی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سنیچر کی صبح کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے چوتو پہنچے تو وہاں روڈ کے ساتھ تین کرولا گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پاس نقاب پوش مسلح افراد تھے۔انہوں نے بتایا کہ ان گاڑیوں میں سے دو سفید رنگ کی تھیں جبکہ ایک سیاہ تھی۔انہوں نے بتایا کہ روڈ پر کھڑے مسلح افراد کے اشارے پر ہم لوگوں نے اپنی گاڑی روکی اور ڈاکٹر لیاقت سنی نے ان کو بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور ڈیوٹی کے سلسلے میں خضدار جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے گالی دی اور ان کو گاڑی سے باہر کھینچ لیا، اور اس کے ساتھ ہم دونوں کو بھی گاڑی سے باہر نکال کر ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے مجھے اور پروفیسر نظام کو ایک گاڑی میں بٹھا دیا ہم نے محسوس کیا جس گاڑی میں ہمیں بٹھایا گیا ہے اس میں ڈاکٹر لیاقت سنی نہیں ہیں۔جس گاڑی میں ہم تھے، اس میں موجود ایک شخص اردو اور پشتو زبان میں بات کر رہا تھا اور ان کا پشتو کا لہجہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کے لہجے کی طرح تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں راستے میں بتایا گیا کہ وہ ہمیں

افغانستان لے جا رہے ہیں اور ہم سے پانچ کروڑ روپے دینے کی بات کی گئی۔ ہم نے انھیں بتایا کہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے، تاہم اپنے خاندان کے لوگوں اور ساتھیوں سے بات کریں گے۔ڈاکٹر شبیر شاہوانی کے مطابق اندازا گاڑی میں دو گھنٹے کے سفر کے بعد مجھے اور پروفیسر نظام بلوچ کو گاڑی سے اتار دیا گیا۔پروفیسر شبیر شاہوانی نے بتایا کہ گاڑی سے اتارنے کے بعد انھیں

کہا گیا کہ وہ افغانستان کے علاقے میں ہیں۔گاڑی سے اتارنے کے بعد ہمیں نیچے بیٹھنے اور سر نیچے کرنے کا کہا گیا۔ یہاں ہماری آنکھوں سے وہ پٹیاں اتاری گئیں جو انہوں نے ہمیں اٹھانے کے بعد باندھی تھیں اور یہاں ہماری آنکھوں پر ہمارے کوٹ اور جیکٹیں باندھی گئیں۔یونیورسٹی کے ٹیچر کے مطابق انھیں بتایا گیا کہ ان کا ایک آدمی ان کے سر پر کھڑا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سر نہیں اٹھائیں

اور امیر صاحب کے حکم کا انتظار کریں۔ آیا وہ آپ لوگوں کو مارنے کا حکم دیں گے یا پیسوں کا کہیں گے۔ یہ کہنے کے بعد گاڑیوں کی روانگی کی آواز آئی۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ دیر کے بعد میں نے کہا کہ مجھے رفعِ حاجت کے لیے جانا ہے، اس لیے میری آنکھوں کو کھول دیا جائے لیکن کوئی آواز نہیں آئی۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد جب جواب نہیں آیا تو میں نے دوبارہ کہا، مگر دوبارہ

کوئی جواب نہیں آیا۔جب میں نے اپنی آنکھوں سے اپنا کوٹ ہٹا لیا تو دیکھا ہمارے پاس کوئی بھی آدمی نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پہاڑوں کے درمیان ایک ویران علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔پروفیسر شبیر شاہوانی نے بتایا کہ اس کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ نتائج جو بھی ہوں ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد ان کو ایک ڈیم اور آبادی نظر آئی۔ جب ہم اس

آبادی کے قریب پہنچے تو وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ ہم کوئٹہ کے قریب اغبرگ کے علاقے میں ہیں۔پروفیسر شبیر نے کہا کہ جہاں وہ اپنی حفاظت پر شکر ادا کر رہے ہیں وہیں انھیں اس بات کا دکھ اور غم ہے کہ ان کے ساتھی ڈاکٹر لیاقت تاحال لاپتہ ہیں۔مستونگ سٹی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سعید احمد نے بتایا کہ تینوں افراد کو صبح ساڑھے سات بجے چوتو کے مقام سے اٹھا لیا گیا تھا۔ انہوں نے

بتایا کہ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر سید عین الدین کی مدعیت میں ان کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔اگرچہ مستونگ پولیس نے پروفیسر لیاقت سنی کے اغوا کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاہم ابھی تک اس واقعے کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔بعد ازاں یونیورسٹی کے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے ایک ہنگامی اجلاس میں مغوی پروفیسر کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…