اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم ”عمران خان پھر فائدے میں ” ؟ میں لکھتے ہیں کہ جب تقریبا ًتمام پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے ایک سزا یافتہ جج ارشد ملک کی طرف سے سزا یافتہ نواز شریف کی تقریر دکھانا شروع کی تو ایسا لگا کہ پاکستان
میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔ لگ رہا تھا سب ٹی وی چینلز حکومتی احکامات کی خلاف ورزی پر اتر آئے اور پیمرا کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے۔ نواز شریف کی تقریر میں ایک پیغام بڑا واضح تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ عمران خان کو حکومت میں لانے والوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اوپر سے چلایا جارہا ہے اور پھر جب انہوں نے ایک حالیہ اسکینڈل پر گفتگو شروع کی تو یہ محسوس ہوا کہ بلاول صاحب کی اے پی سی پیچھے رہ گئی ہے اور نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی ہے۔تقریر ختم ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ تقریر کس نے لکھی ہے؟ اے پی سی ہال کے اندر سے باہر موجود ساتھیوں کو پوچھا جا رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ تقریر سب ٹی وی چینلز نے دکھا دی ہے تو اے پی سی کے شرکا کو یقین نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ کچھ وزرا نے یہ اعلان تو کر دیا تھا کہ نواز شریف کی تقریر دکھانے کی اجازت نہیں ہوگی
لیکن جب چینلز نے تقریر دکھانا شروع کی تو حکومت کی طرف سے چینلز کو تقریر روکنے کے لئے ہدایات نہیں آئیں۔شاید وزیراعظم نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر نواز شریف کی تقریر چینلز پر دکھا دی جائے تو حکومت کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ مسلم لیگ(ن)کو نقصان ہوگا کیونکہ نواز شریف
کا نشانہ عمران خان کم اور ریاستی ادارے زیادہ ہوں گے اور اگر نواز شریف کے خیالات عام پاکستانیوں تک پہنچ جائیں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ نواز شریف کی لڑائی تحریک انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے ساتھ ہے۔