اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)زندگی کے آخری دنوں میں وہ کہتے کہ میرا ٹائم پورا ہو چکا اب احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔بلوچستان کے حالات پر بہت پریشان تھے ۔ایک دن کہنےلگے کہ آج جس جس کو بھی غدار کہا جاتا ہے اس کے بزرگوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔سینئر کالم نگار حامد میر اپنے کالم
’’حاصل بزنجو کی آخری خواہشیں‘‘ میں میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔اس صدارتی الیکشن میں غوث بخش بزنجو بلوچستان میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی سیکورٹی سردار خیربخش مری کے سپرد کر رکھی تھی۔ایک دن خیر بخش مری نے بزنجو صاحب کو شکایت کی کہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن ذرا محترمہ کو بتا دیں کہ میں کون ہوں وہ سب کے سامنے مجھے انگریزی میں ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتی ہیں جس پر بزنجو صاحب نے کہا کہ جمہوریت کی خاطر یہ ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرلو۔حاصل بزنجو کہا کرتے کہ یہ ریاست کیوں نہیں سوچتی کہ جو خیر بخش مری 1964ء میں فاطمہ جناح کی سیکورٹی کا نگران تھا وہ زندگی کے آخری دنوں میں علیحدگی پسند کیوں بنا؟حاصل بزنجو کےساتھ مارچ 2013ء میں بنگلہ دیش کا ایک یادگار سفر مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔اس سفر میں عاصمہ جہانگیر، سلیمہ ہاشمی، طاہرہ حبیب جالب اور کچھ دیگر دوست بھی ہمارے ساتھ تھے۔بنگلہ دیشی حکومت نے 1971ء کے فوجی آپریشن کی مخالفت پر غوث بخش بزنجو، فیض احمد فیض، حبیب جالب، وارث میر کے علاوہ کچھ دیگر شخصیات کو فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا اور ہم یہ ایوارڈ وصول کرنے ڈھاکہ گئے تھے ۔ڈھاکہ میں ہم مزار شہداء گئے تو وزیٹرز بک میں ہمیں سابق صدر پرویز مشرف کے ریمارکس دکھائے گئے۔انہوں نے 1971ء کے واقعات پر معذرت کی تھی۔ اس دورے کے دوران حاصل بزنجو اور عاصمہ جہانگیر نے ہر جگہ کہا کہ ہمارے بزرگوں نے 1971ء کے آپریشن کی مخالفت کی لیکن اب ہمیں آگے بڑھنا ہے لہٰذا 1971ء کے واقعات کے نام پر جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ ناانصافی نہ کی جائے۔ کچھ دن پہلے وزیر اعظم عمران خان اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تو حاصل بزنجو کا فون آیا۔وہ کہہ رہے تھے کہ اب تو عمران خان بھی ہم غداروں کاساتھی بن گیا ہے۔ حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچ عسکریت پسندوں کےساتھ مذاکرات شروع کئے تھے جو انجام کو نہ پہنچ سکے جس کا حاصل کو بہت افسوس تھا۔وہ ان عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانا چاہتے تھے اور یہی انکی آخری خواہشیں تھیں۔