اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ اتنی دیر میں تو ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔جب تک ہم خوابوں کی جذباتی دنیا سے نکل کر حقیقتوں کی تلخ زمین کا ذائقہ نہیں چکھتے اور حقیقت یہ ہے ہم اس قدر کوتاہ فہم اور نالائق ہیں کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن قومی ایشوز پر بھی اکٹھا نہیں بیٹھتی‘ ہم اپنی ضرورت کے مطابق گندم بھی نہیں اگا سکتے‘ ہم ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘
ہم چینی‘ آٹا اور پٹرول مافیا کو کنٹرول نہیں کر پاتے اور ہم کراچی کے نالے بھی صاف نہیں کر سکتے‘ پتا نہیں ہم کب حقیقتوں کا سامنا کریں گے؟ پاکستان پوری دنیا میں واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر لکھا ہے ”یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے“ ہم پاسپورٹ پر یہ کیوں لکھتے ہیں؟ ہم نے کبھی سوچا!صرف اور صرف برادر عرب ملکوں کی محبت میں! ہم نے اپنے ازلی دشمن بھارت کو 1947ءمیں ہی تسلیم کر لیا تھا‘ ہم نے مشرقی پاکستان کو صرف ایک سال بعد بنگلہ دیش مان لیا تھا لیکن ہم 72 سال سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے‘ کیوں؟ برادر عرب ملکوں کی محبت میں‘ ہم نے یہ فیصلہ برادر اسلامی ملکوں کے لیے کیا تھا‘ ہم نے اچھا فیصلہ کیا ہو گا لیکن ہمیں اس محبت‘ اس قربانی کا کیا صلہ ملا؟ برادر عرب ملک تو دور فلسطینیوں نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرتے وقت ہم سے نہیں پوچھا تھا۔ہم آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جب کہ برادر اسلامی ملکوں میں اسرائیل کے سفارت خانے کھل چکے ہیں لیکن چلیے ہم اس کے باوجود پاکستانی موقف کو کریکٹر کا نام دے دیتے ہیں ‘ مسلمان مسلمان کے لیے کھڑا نہیں ہو گا تو کون ہو گا لیکن سوال یہ ہے کیا آج تک کسی برادر اسلامی ملک کے منہ سے کشمیر کا نعرہ نکلا‘ کسی نے آگے بڑھ کر کشمیریوں کو گلے لگایا؟ آپ پرانی بات چھوڑ دیجیے‘ بھارت نے پانچ اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس ہی تبدیل کر دیا۔نریندر مودی نے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا لیکن ان برادر اسلامی ملکوں نے پاکستان اور کشمیریوں کے لیے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا جن کے لیے ہم72 سال سے اسرائیل سے متھا لگا کر کھڑے ہیں‘ آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے‘ سعودی عرب نے پاکستان کو معاشی سپورٹ دینے کے لیے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر رکھوائے تھے‘ ہم جس وقت مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے نقشے کا حصہ بنا رہے تھے سعودی عرب نے اپنی یہ رقم واپس لے لی اور ہم نے بے عزتی کے ڈر سے یہ خبر تک چھپا لی۔