اسلام آباد(آن لائن) امریکہ میں پی آئی اے کے ملکیتی روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری روکنے کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کی ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے عدالت کو بتایا کہ روز ویلٹ کو فروخت کر رہے ہیں نہ نجکاری کا ارادہ ہے ۔ جسٹس عامر فاروق نے وفاق کے بیان کے بعد درخواست نمٹا دی راجہ خالد محمود نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس پر
غور کر رہی ہے کہ کیسے اس کا استعمال منافع بخش بنایا جائے حکومت ایڈوائزر مقرر کر رہی ہے کہ کیسے ہوٹل کو مستقبل میں منافع بخش بنایا جائے جسٹس عامر فاروق نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے دوران سماعت استفسار کیا کہ روزویلٹ ہوٹل میں جوائنٹ ونیچر تو نہیں ہورہا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نہیں ابھی ایسا کچھ نہیں یہ صرف اخباری خبریں ہیں جس پر جسٹس عامر نے ریمارکس دیئے کہ قومی اثاثے کو ایسے ہی پھینکنا نہیں چاہیے جیسے عمومی طور پر ہم کرتے ہیں اس موقع ہر عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں فزیبلٹی صرف منافع بخش ہونے کے حوالے سے تیار ہورہی ہے درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی ذوالفی بخاری اپنے فرنٹ مین نے ذریعے اس کو لینا چاہتا ہے اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا رٹ میں موجود کسی فریق کو تو نہیں دیا جا رہا عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہاں ٹیلنٹ نہیں ہے کہ غیر ملکی اسپیشلسٹ کو ہائر کرکے خدمات لے رہے ہیں؟ایسے نہ کریں یہ قومی اثاثہ ہے کسی کا ذات نہیں نہ کسی کا ذاتی انٹرسٹ ہونا چاہیے وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ہر حکومت یہی کرتی ہے ذوالفی بخاری پاکستانی نیشنل بھی نہیں،نہ منتخب نمائندہ ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ پاکستانی ہیں لیکن دوہری شہریت کے حامل ہیں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا یہ تو پبلک آفس ہولڈر میں بھی آجاتا ہے عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایات کی کہ وفاق کا بیان ذکر کر دیتے ہیں مستقبل میں کچھ ایسا ہو تو آپ دوبارہ رٹ دائر کر سکتے ہیں ۔