اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سنگاپور کی ایک یونیورسٹی نے پیش گوئی کی ہے کہ کورونا وائرس رواں سال جون میں ختم ہو جائے گا۔ وزیراعظم کے مشیر صحت ظفر مرزا نے جس دن اس تحقیق کے نتائج سامنے آئے اسی دن عوام کو یہ بات بتائی۔ یہ نہ صرف خوشخبری تھی بلکہ یہ بات سننے کیلئے لوگ بھی بے قرار تھے۔ لیکن کیا یہ واقعی سچ ہے؟ ۔ روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق چین اور
جنوبی کوریا دو ایسے ممالک ہیں جو شروع میں متاثر ہوئے تھے لیکن اب وہاں ایک مرتبہ پھر وائرس سے لوگوں کے متاثر ہونے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ سنگاپور میں بھی دوسری لہر آئی ہے۔ متاثرین کی تعداد کم ہونے کے حوالے سے شدید گرمی (ہیٹ ویو) کو ان عوامل میں شامل کیا جا رہا ہے جو کورونا وائرس کو ختم کر سکتے ہیں لیکن اس کے بھی شواہد نہیں۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔سائنسدان اسے سمجھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، کئی باتیں اب بھی معلوم نہیں۔ جب تک پوری بات پتہ نہیں چل جاتی اس وقت تک صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔ برطانوی حکومت کے چیف میڈیکل افسر پروفیسر کرس وہیٹی نے اپیل کی ہے کہ کم از کم سال کے آخر تک سماجی فاصلہ (سوشل ڈسٹنس) اختیار کیا جائے۔ جنوبی افریقہ میں مستقبل کے امور پر نظر رکھنے والے ماہر اور اسٹریٹجی کنسلٹنٹ گرائیم کوڈرنگٹن کہتے ہیں کہ سوشل ڈسٹنس کا سلسلہ کم از کم آئندہ سال کے وسط تک جاری رہ سکتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ گھروں، اسکولوں یا دفاتر سے باہر لوگوں کے روابط 75؍ فیصد تک کم ہونے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی جلد معمول پر آنے کا امکان نہیں۔ اسلئے، معمولات بحال ہونے سے قبل دنیا کو کورونا وائرس کی ویکسین درکار ہوگی۔لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ ویکسین کب تک تیار ہوگی۔ اگر بل گیٹس کی بات مان لیں تو ویکسین آنے میں 14؍ سے 18؍ ماہ لگیں گے۔ اس کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ کس ملک کو سب سے پہلے ویکسین ملے گی اور یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو ملک یہ ویکسین پہلے بنائے گا اس کے عوام کو یہ دوا پہلے ملے گی۔ اس کے بعد اُن ممالک کا نمبر آئے گا جو امیر ہیں یا وائرس کے دوسرے حملے کے خطرے کا سامنا کرنے والے ممالک۔ مختصراً، ہر ملک میں ویکسین پہنچنے میں کچھ سال لگیں گے۔ اس وقت تک ہمیں خود کو ایک نئی عمومی حالت کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ جھوٹی تسلیوں سے کوئی مدد نہیں ملنے والی۔