ہفتہ‬‮ ، 28 جون‬‮ 2025 

’’مولاناایک طرف کہتےہیں کرونا عذاب ، دوسری طرف کہتے ہیں مرنے والا شہید ہو گا ‘‘ بچپن سے ہمارے دماغوںمیں بٹھا دیا گیاتصورمیں چاہے کتنا ہی تضاد کیوں نہ ہو ہر مسلمان اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جنت میں جانے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ! حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں، مولانا پر معروف صحافی نے تلخ سوالات کی بوچھاڑ کر دی

datetime 26  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار یاسرپیر زادہ اپنے کالم ’’جیسے عوام ہوں گے ویسی دعا ہوگی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ مولانا طارق جمیل نے تمام ثبوت ہمارے خلاف دیے، قوم لوط کی مثال بھی جڑ دی تو پھر اللہ ہماری کیوں سنے؟ ایک طرف آپ فرماتے ہیں کہ خدا کا عذاب ہے، دوسری طرف کہتے ہیں کہ اِس بیماری سے مرنے والے شہید ہیں، گویا یہ عذاب ہماری بے راہ روی اور بے ایمانی کے نتیجے میں آیا

اور جو اِس کی زد میں آیا وہ شہید ٹھہرا اور کیا بطور مومن ہمیں شہادت سے بچنا چاہیے یا اسے گلے لگانا چاہیے!یہ خلاصہ ہے اسی تصورِ دین کا جو ہمارے دماغ میں بچپن سے بٹھا دیا گیا، اِس تصور میں بھلے کتنے ہی تضادات کیوں نہ ہوں، اسے پذیرائی ملتی ہے اور عام مسلمان اِس کی طرف کھنچتا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا آسان حل چاہتے ہیں، جیسے کوئی پاور ڈوز جو سب کچھ ٹھیک کر دے، کوئی معجزہ، کوئی کرشمہ، جنت میں جانے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ! حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں، اسلام چند وظائف پڑھ کر جنت کمانے کا نام نہیں اور نہ ہی یہ چار پیسے خیرات کرکے جنت میں حور سے ملاقات کروانے کا اہتمام کرتا ہے، اسلام تو ظلم کے خلاف لڑنے کا نام ہے، اِس کے راستے میں تو غاصب کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا پڑتا ہے، مظلوم کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ دینا پڑتا ہے، امرا اور طاقتور طبقات کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہی کیا، آپﷺ نے مکہ کی اُس وقت کی اشرافیہ اور Ruling Elite کے خلاف ایسی جدوجہد کی جو رہتی دنیا تک امر ہو گئی، ایک حبشی غلام کو وہ درجہ دیا جو مکہ کے سردار کو حاصل تھا، رنگ و نسل کی تمیز مٹا دی اور ایسا انقلاب برپا کیا جو کسی معجزے سے کم نہیں مگر اِس کے لیے آپﷺ نے عملاً خود جدوجہد کی۔ سردارِ دو جہاںؐ نے خود تکالیف کاٹیں اور مصائب برداشت کیے، آپﷺ چاہتے تو خدا سے دعا کرکے ٹال سکتے تھے مگر آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ ہے وہ راستہ جس پر ہمیں چلنا تھا مگر افسوس کہ ہم نے بھلا دیا اور اس کی جگہ دین کی بگڑی ہوئی شکل کو اپنا لیا، اب ہمارے عالم دین مبہم دعائیں کرتے ہیں، حوروں کی تصویر کشی کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں اور جن طبقات کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے، الٹا انہی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ اِس تصورِ دین کو بڑھاوا دینے میں صرف اِن مبلغو ں کا قصور نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات نے اِن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، ہر دور کے حکمرانوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے، تاجر برادری کی یہ آنکھ کا تارا ہیں، سرکاری افسران اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بیان کی دعوت دیتے ہیں اور رہے عام مسلمان تو ان بیچاروں کی داد رسی جب ریاست نہیں کرتی تو یہ مجبور ہو کر اِن کے در پر پہنچ جاتے ہیں اور مولانا سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ جیسے عوام ہوں گے ویسی دعا ہو گی!

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سٹوری آف لائف


یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…