اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’مولاناایک طرف کہتےہیں کرونا عذاب ، دوسری طرف کہتے ہیں مرنے والا شہید ہو گا ‘‘ بچپن سے ہمارے دماغوںمیں بٹھا دیا گیاتصورمیں چاہے کتنا ہی تضاد کیوں نہ ہو ہر مسلمان اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جنت میں جانے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ! حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں، مولانا پر معروف صحافی نے تلخ سوالات کی بوچھاڑ کر دی

datetime 26  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار یاسرپیر زادہ اپنے کالم ’’جیسے عوام ہوں گے ویسی دعا ہوگی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ مولانا طارق جمیل نے تمام ثبوت ہمارے خلاف دیے، قوم لوط کی مثال بھی جڑ دی تو پھر اللہ ہماری کیوں سنے؟ ایک طرف آپ فرماتے ہیں کہ خدا کا عذاب ہے، دوسری طرف کہتے ہیں کہ اِس بیماری سے مرنے والے شہید ہیں، گویا یہ عذاب ہماری بے راہ روی اور بے ایمانی کے نتیجے میں آیا

اور جو اِس کی زد میں آیا وہ شہید ٹھہرا اور کیا بطور مومن ہمیں شہادت سے بچنا چاہیے یا اسے گلے لگانا چاہیے!یہ خلاصہ ہے اسی تصورِ دین کا جو ہمارے دماغ میں بچپن سے بٹھا دیا گیا، اِس تصور میں بھلے کتنے ہی تضادات کیوں نہ ہوں، اسے پذیرائی ملتی ہے اور عام مسلمان اِس کی طرف کھنچتا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا آسان حل چاہتے ہیں، جیسے کوئی پاور ڈوز جو سب کچھ ٹھیک کر دے، کوئی معجزہ، کوئی کرشمہ، جنت میں جانے کا کوئی شارٹ کٹ راستہ! حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں، اسلام چند وظائف پڑھ کر جنت کمانے کا نام نہیں اور نہ ہی یہ چار پیسے خیرات کرکے جنت میں حور سے ملاقات کروانے کا اہتمام کرتا ہے، اسلام تو ظلم کے خلاف لڑنے کا نام ہے، اِس کے راستے میں تو غاصب کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا پڑتا ہے، مظلوم کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ دینا پڑتا ہے، امرا اور طاقتور طبقات کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہی کیا، آپﷺ نے مکہ کی اُس وقت کی اشرافیہ اور Ruling Elite کے خلاف ایسی جدوجہد کی جو رہتی دنیا تک امر ہو گئی، ایک حبشی غلام کو وہ درجہ دیا جو مکہ کے سردار کو حاصل تھا، رنگ و نسل کی تمیز مٹا دی اور ایسا انقلاب برپا کیا جو کسی معجزے سے کم نہیں مگر اِس کے لیے آپﷺ نے عملاً خود جدوجہد کی۔ سردارِ دو جہاںؐ نے خود تکالیف کاٹیں اور مصائب برداشت کیے، آپﷺ چاہتے تو خدا سے دعا کرکے ٹال سکتے تھے مگر آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ ہے وہ راستہ جس پر ہمیں چلنا تھا مگر افسوس کہ ہم نے بھلا دیا اور اس کی جگہ دین کی بگڑی ہوئی شکل کو اپنا لیا، اب ہمارے عالم دین مبہم دعائیں کرتے ہیں، حوروں کی تصویر کشی کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں اور جن طبقات کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے، الٹا انہی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ اِس تصورِ دین کو بڑھاوا دینے میں صرف اِن مبلغو ں کا قصور نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات نے اِن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، ہر دور کے حکمرانوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے، تاجر برادری کی یہ آنکھ کا تارا ہیں، سرکاری افسران اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بیان کی دعوت دیتے ہیں اور رہے عام مسلمان تو ان بیچاروں کی داد رسی جب ریاست نہیں کرتی تو یہ مجبور ہو کر اِن کے در پر پہنچ جاتے ہیں اور مولانا سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ جیسے عوام ہوں گے ویسی دعا ہو گی!

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…