اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے کالم ’’ کس نے ہمیں پکارا۔ ہم آگئے فریادی‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔پاکستان کا معاملہ بھی ایران سے ملتا جلتا ہے۔لیکن یہاں سیاسی کشمکش، نیم دلی اور یورپ پلٹ ماہرین کی پالیسی سازی پر گرفت اسے مزید خراب کر سکتی ہے۔فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں ہے جنہیں پاکستان کے معروضی حالات کا بالکل اندازہ تک نہیں۔
چند غیرملکی پاکستانیوں کا یہ جتھہ ہے جو اکثر چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا کرتے تھے اور چند دن لوگوں سے الگ تھلگ وقت گزار کر پاکستان کی حکومت اور عوام کو برا بھلا کہہ کر واپس چلے جاتے تھے، آج یہ’’ ماہرین‘‘حکومت کے مشیران خاص ہیں۔ پاکستان ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پلٹ مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے 26 فروری کو بتایا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے دو مریضوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایران سے واپس آئے تھے اور پھراسی ہفتے ایسے تین مریضوں کا اضافہ ہوگیا۔ ایران سے بلوچستان کے شہر تفتان میں زائرین کی واپسی شروع ہوئی تو وہاں ایک ایسا مرکز قائم کیا گیا تھا جس پر کسی مہاجر کیمپ کا گمان ہوتا تھا۔ جو زائرین وہاں موجود تھے ان میں پریشانی اور افراتفری تو لازمی تھی۔ ظفر مرزا وہاں گئے اورواپس آکر عمران خان کو یہ خبر سنائی کہ تفتان میں تو کوئی عمارت ہی نہیں ہے، بندوبست کہاں کریں۔عمران خان نے یقین بھی کر لیا۔ کاش ظفرمرزا قریب ہی سیندک کی اسلام آباد نما کالونی دیکھ لیتے، تالاب کے علاقے کا دورہ کرلیتے۔ تفتان کے ہوٹل دیکھتے جو زائرین کے لیے بنے ہوئے ہیں۔بہرحال فیصلہ ہوا اور وہاں سے زائرین کی سکھر اور دیگر شہروں میں منتقلی ہو گئی۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس دوران پورا ملک پی ایس ایل کے میچوں کی رنگینیوں میں گم تھا اور خان صاحب کے ایک اور یورپ پلٹ ساتھی احسان مانی کویہ احساس تک نہیں تھا کہ میچ وائرس کے
پھیلاؤ میں کس قدر خطرناک ہیں۔سندھ میں زائرین پہنچے تو انہیں سنگینی کا احساس ہوا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس آفت کا سب سے پہلے ادراک سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے کیا اور یکم مارچ کو تمام تعلیمی ادارے بند کردیے۔ابھی تک عمران خان کی حکومت فیصلہ سازی سے محروم تھی جبکہ اس وقت تک 213 مریضوں کی شناخت ہو چکی تھی۔ سندھ حکومت نے پریشانی میں بارہ مارچ کو پی سی بی کے
چیئرمین کو درخواست کی کہ حالات کی سنگینی کی وجہ سے باقی میچ منسوخ کیے جائیں۔ پی سی بی نے یہ فیصلہ کرنے کیلئے پانچ دن لیئے۔ حالات سنگین ہوئے تو سندھ حکومت نے 21 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا، پنجاب حکومت نے بھی ایسا ہی اعلان کیا مگر اگلے دن فیصلہ واپس لے لیا۔ عمران خان صاحب روز روز قوم سے خطاب کرنے لگے اور کہتے ایسا کیا تو ایسا ہو جائے گا، ایسا کیا تو ایسا ہو جائے گا
مگر کوئی فیصلہ نہ کر پائے۔ پورے ملک کی انتظامیہ کو بالکل پتہ نہیں کہ آج کا حکم نامہ کتنے دن چلے گا۔کیا کچھ کب تک بند رکھنا ہے اور کب تک کھولنا ہے۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا فائٹرز کی طرح کرونا ٹائیگرز کون ہیں، کہاں سے آئیں گے، کیا کریں گے، ان کی تربیت کون کرے گا کچھ پتا نہیں، البتہ خوبصورت شرٹس تیار ہوچکی ہیں۔ ایک خوبصورت رنگارنگ دنیا ہے جو اسلام آباد میں سجی ہے۔
اس میں مغرب پلٹ ماہرین ہیں، بریفنگز ہیں، پریس کانفرنسیں ہیں۔ کمپیوٹر پورٹل تیار ہیں۔ نوکنڈی، مِٹھی روجھان اوربونیر کا بھوکامریض، بے روزگار اور جھونپڑی میں رہنے والا پہلے موبائل خریدے گا، اور وہ بھی ایسا موبائل جس میں انٹرنیٹ ہو، پھر چلانا سیکھے گا اس کے بعد عمران خان صاحب کے یورپ پلٹ مشیروں کے پورٹل پر دستک دینے کے قابل ہوگا۔درخواست پورٹل پر جمع ہو گی اور پھر۔۔۔ آواز آئے گی۔۔۔ کس نے ہمیں پکارا۔ ہم آگئے فریادی۔