نوول کرونا مہلک وائرس کیسے پھیلتا ہے؟ تین بڑی اور اہم وجوہات سامنے آگئیں میڈیکل سائنس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور تیسرا نوول کرونا کا علاج کیا ہے؟ دنیا ابھی تک اس کا علاج دریافت نہیں کر سکی چناں چہ جس دن اس کی ویکسین مارکیٹ میں آ جائے گی اور ہم کس چیز سے واقف ہو جائیں گے ؟ہمیں خوف سےنکلنے کیلئے کتنا اور انتظار کرنا پڑے گا ؟ جاوید چودھری کا تہلکہ خیز انکشاف

18  مارچ‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’سینٹ لوئس ماڈل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔دنیا نوول کرونا کی وجہ سے کیوں پریشان ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی‘ ہم یہ نہیں جانتے یہ پھیلتا کیسے ہے؟ یہ ہاتھ سے پھیل رہا ہے‘ سانس سے یا پھر ہوا سے‘ دوسرا یہ انسان کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے‘ میڈیکل ایکسپرٹس کا خیال ہے یہ گرمی برداشت نہیں کر پائے گا

چناں چہ ہمارا درجہ حرارت جوں ہی 30 ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچے گا یہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن کیا یہ 2021ءکی گرمیوں میں بھی ختم ہو جائے گا یا پھر اگلے سال تک اس میں گرمیاں برداشت کرنے کی اہلیت بھی پیدا ہو جائے گی۔میڈیکل سائنس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور تیسرا نوول کرونا کا علاج کیا ہے؟ دنیا ابھی تک اس کا علاج دریافت نہیں کر سکی چناں چہ جس دن اس کی ویکسین مارکیٹ میں آ جائے گی اور ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا یہ زیادہ سے زیادہ کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے اور یہ کیسے اور کس وقت پھیلتا ہے تو ہم اس کے خوف سے نکل جائیں گے اور پھر دنیا اسی طرح کھل جائے گی جس طرح یہ طاعون اور انفلوئنزا کے بعد کھلی تھی لیکن ہمیں اس کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔ہم اب پاکستان کی طرف آتے ہیں‘ ہمیں ماننا ہوگا ہم میں کرونا وائرس جیسی وباؤں سے نبٹنے کی اہلیت نہیں‘ یہ وبا اب تک چین‘ اٹلی اور امریکا جیسے ملکوں کو لٹا چکی ہے‘ اڑھائی سو ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ‘ یہ نقصان کہاں تک جائے گا دنیا نہیں جانتی اور ہم اس دنیا میں چھوٹی سی مکھی ہیں چناں چہ خدانخواستہ اگر کرونا پاکستان میں پھیل گیا تو ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکیں گے‘ ہم ہاتھ ملا ملا کر اسے شام تک 22 کروڑ لوگوں تک پہنچا دیں گے لہٰذا پھر ہمارے پاس سینٹ لوئس ماڈل کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔قومی سلامتی کمیٹی نے دو دن قبل تعلیمی ادارے‘ پی ایس ایل میچز (تماشائیوں کے بغیر)‘23 مارچ کی

تقریبات منسوخ اور افغانستان ‘ ایران اور بھارت کے ساتھ سرحدیں بند کر کے اچھا قدم اٹھایا‘ حکومت کو چاہیے یہ اب ایک قدم اور آگے بڑھے‘ میاں شہباز شریف نے 2012ءمیں ڈینگی کنٹرول کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا‘ وزیراعظم دل بڑا کر کے اس ماڈل کا مطالعہ کریں اور یہ پورے ملک میں نافذ کر دیں‘ میاں شہباز شریف نے 94 دن ڈینگی پر روزانہ میٹنگ کی تھی۔صبح چھ سے آٹھ بجے تک میٹنگ ہوتی تھی

اور اس میں 38 صوبائی سیکرٹریوں سمیت لاہور کے تمام ایم پی اے اور ایل ڈی اے کی مینجمنٹ شامل ہوتی تھی‘ یہ میٹنگ 94 دنوں میں ایک دن بھی معطل نہیں ہوئی‘ سو لوگوں کو روزانہ کام دیا جاتا تھا اور وہ اگلے دن کام کا تصویری ثبوت لے کر میٹنگ میں شامل ہوتے تھے‘ وزیراعظم کو چاہیے یہ ڈینگی ٹیم کو بلائیں‘ میٹنگ کریں اور اس کے بعد ملک میں ڈینگی کی سپرٹ نافذ کر دیں‘ ہم پر اللہ کا کرم ہے‘

ہم ابھی تک خطرے سے باہر ہیں مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے ہم ایک لاپرواہ قوم ہیں‘ ہم نے اگر اس وبا کو سیریس نہ لیا تو پھر ہمارا حال فلاڈلفیا جیسا ہو گا۔ہمارے پاس مردے دفن کرنے کے لیے بھی جگہ نہیں بچے گی چناں چہ پلیز پلیز ٹویٹس کی دنیا سے باہر آئیں اور کرونا کے خلاف عملی قدم اٹھائیں‘میڈیا کے ساتھ مل کر کرونا کے خلاف تحریک چلائیں‘ لوگوں کو قائل کریں‘ یہ اپنے گھروں کو14 دنوں کے لیے قرنطینہ بنا لیں‘

منہ سے سلام کریں‘ ہاتھ نہ ملائیں اور ہر پندرہ منٹ بعد صابن سے 22 سیکنڈ ہاتھ دھوئیں‘ آپ بس اور ٹرین سروس بھی معطل کر دیں اور لوگوں کو بتائیں یہ جہاں ہیں یہ حالات ٹھیک ہونے تک وہیں رہیں یہاں تک کہ وبا کا خطرہ ٹل جائے۔ہمارے وزیراعظم اگر ٹویٹ کی دنیا سے باہر آ گئے تو ہم بچ جائیں گے ورنہ اگر خدانخواستہ یہ وبا پھیل گئی تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے‘ کیوں؟

کیوں ہم آج تک اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پولیو نہیں روک سکے اور یہ نوول کرونا ہے‘ ایک ایسی بیماری جس کی ویکسین بھی موجود نہیں اور ہم اس کے پھیلنے کی وجوہات بھی نہیں جانتے لہٰذا آپ پھر تباہی کا اندازہ کر لیجیے لہٰذا ٹویٹ بند کریں اور کام شروع کریں۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…