’’ میں سب کے سامنے مانتی ہوں میں کنجر ہوں‘‘ بدنام زمانہ اداکارہ کا تعلق ”اس بازار“ سے تھا اور اس نے انٹرویو لینے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف اپنے بیک گراؤنڈ کا اعتراف کیاتھا بلکہ یہ بھی کہا تھا مجھے لوگوں نے اغواءکیا‘ مجھے سڑکوں پر گھسیٹا گیا‘ میرے بال کاٹ دیے گئے اور مجھے سرعام مارا گیا لیکن میں نے اپنا کام نہیں چھوڑا‘میری ٹنڈ کی گئی لیکن ۔۔۔تہلکہ انکشاف‎

13  مارچ‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے کالم ’’مراثیوں کے لیے الگ قبرستان بنا دیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔میری امان اللہ مرحوم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن یہ اس کے باوجود میرے بہت بڑے محسن ہیں‘ بیس برسوں میں کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے ان کو یاد نہ کیا ہو اور ان کے لیے دعا نہ کی ہو‘ میں نے زندگی میں ہزاروں انٹرویوز دیکھے ہیں لیکن دو انٹرویوز دماغ کی

دیواروں کے ساتھ چپک کر رہ گئے ہیں‘ پہلا انٹرویو تھیٹر کی ایک بدنام زمانہ اداکارہ کا تھا‘ وہ خاتون ہیں لہٰذا میں ان کا نام نہیں لکھ رہا لیکن میں اس خاتون کے الفاظ ہزاروں لوگوں کو سنا چکا ہوں۔خاتون کا تعلق ”اس بازار“ سے تھا اور اس نے انٹرویو لینے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف اپنے بیک گراؤنڈ کا اعتراف کیاتھا بلکہ یہ بھی کہا تھا مجھے لوگوں نے اغواءکیا‘ مجھے سڑکوں پر گھسیٹا گیا‘ میرے بال کاٹ دیے گئے اور مجھے سرعام مارا گیا لیکن میں نے اپنا کام نہیں چھوڑا‘ میں ٹنڈ ہونے کے باوجود اگلے دن تھیٹر پہنچی اور میں نے سٹیج پر ڈانس کیا‘وہ خاتون بے باکی میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئی اور اس نے کہا” لوگ مجھے کنجر کہتے ہیں اور میں سب کے سامنے مانتی ہوں میں کنجر ہوں‘ میں نے آج تک اپنے نام کے آگے پیچھے شاہ‘ چودھری‘ رضوی‘ خان یا قریشی نہیں لگایا‘ میں جو ہوں میں وہی ہوں“ میں نے جوں ہی یہ الفاظ سنے مجھے فوراً حضرت عیسیٰ ؑ کا واقعہ یاد آ گیا‘ آپؑ ڈوبتے ہوئے بچھو کو پانی سے نکالتے تھے اور وہ آپؑ کے ہاتھ پر ڈنک مار دیتا تھا‘ آپؑ تکلیف کی وجہ سے اسے چھوڑدیتے تھے‘ وہ دوبارہ پانی میں گر جاتا تھا‘ آپؑ اسے پھر نکالتے تھے اور وہ پھر ڈس لیتا تھا‘ حواری نے آپؑ سے کہا‘ یسوع مسیح آپؑ اسے اس کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے‘ آپؑ نے فرمایا اگر یہ اپنی برائی نہیں چھوڑ رہا تو میں اپنی اچھائی کیوں چھوڑ دوں‘ میں نے خاتون کا انٹرویوسنا اور سوچا دنیا اگر اپنی بھرپور طاقت کے باوجود ناچنے والی کو ناچنے سے باز نہیں رکھ سکی‘

یہ ٹنڈ ہونے کے باوجود اگلے دن دوبارہ سٹیج پر پہنچ جاتی ہے تو پھر ہم لوگ اپنی اچھائی کیوں چھوڑ دیتے ہیں‘ ہم لوگوں کی تنقید‘ لوگوں کی مخالفت پر اپنا سچا اور کھرا موقف کیوں بدل لیتے ہیں۔ہم صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کبھی قاری اور کبھی رضوی کیوں بن جاتے ہیں اور ہم

”آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں اور ہاں آپ بھی درست فرما رہے ہیں“ کیوںکہتے ہیں؟ میں ہر دوسرے تیسرے دن اپنے سیشنز میں لوگوں کو یہ واقعہ سناتا ہوں اور عرض کرتا ہوں” اگر وہ برائی کو برائی سمجھنے کے باوجود برائی پر قائم رہی تو ہم سچائی کو سچائی سمجھتے ہوئے سچائی پر قائم کیوں نہ رہیں‘ ہم ناکامی کے بعد اگلے دن دوبارہ وہ کام شروع کیوں نہ کریں‘ ہم پیچھے کیوں ہٹیں؟“

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…