اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ نیب کے گرفتاری کے اختیار پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے اور اس اختیار کی وضاحت کرناہوگی، کہیں نہ کہیں یہ سلسلہ ختم ہوناہوگا۔جمعرات کو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں احسن اقبال کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے نیب سے پوچھا کہ احسن اقبال تفتیش میں تعاون کررہے تو گرفتار کیوں کیا؟
کیا گرفتار کیے بغیر انکوائری مکمل نہیں ہوسکتی تھی؟اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گرفتاری کا حکم مجاز اتھارٹی، چیئرمین نیب نے دیا، خدشہ تھا کہ احسن اقبال ریکارڈ ٹیمپر کردیں گے، اس پر عدالت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ کیا وزارت کا ریکارڈ اب بھی احسن اقبال کے پاس ہے؟نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وارنٹ گرفتاری ٹھوس شواہد کی روشنی میں ہی جاری کیے جاتے ہیں اس پر عدالت نے پھر پوچھا کہ یہی پوچھ رہے ہیں کہ وہ وجہ بتائیں کہ گرفتاری کے آرڈر کیوں جاری کیے گئے؟ جب آپ کسی کو گرفتارکرتے ہیں تو اس کی عزت اور وقار پر حرف آتا ہے، کیا نیب میں اتنی صلاحیت نہیں کہ احسن اقبال کو بنیادی حقوق سے محروم کیے بغیر تفتیش مکمل کرتا؟ کیوں نہ نیب کی بلاجواز گرفتاری کو غلط قرار دیا جائے؟ نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ خدشہ تھا کہ احسن اقبال گواہوں کو نیب نہیں آنے دیں گے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا تفتیشی افسر صاحب آپ کو کس بنیاد پر خدشہ تھا کہ یہ گواہوں کو نہیں آنے دیں گے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ احسن اقبال کے ملک سے فرار ہونے کا بھی خدشہ تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس صورت میں آپ کو ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا چاہئے تھا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیے کہ کیوں نہ نیب کی بلاجواز گرفتاری کو غلط قرار دیا جائے، نیب کے گرفتاری کے اختیار پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے، کہیں نہ کہیں یہ سلسلہ ختم ہوناہوگا، اس اختیار کی وضاحت کرناہوگی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو 23 دسمبر کو نیب نے گرفتار کیا۔ملنے والی نیب دستاویز میں کہا گیا کہ نارووال اسپورٹس کمپلیکس سٹی منصوبے کی لاگت 34.410 ملین روپے سے بڑھا کر 97.520 ملین کی گئی اور لاگت بڑھانے کی کسی مجاز اتھارٹی یا فورم سے منظوری نہیں لی گئی۔نیب دستاویز کے مطابق سی ڈی ڈبلیو پی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھانے کی منظوری نہ لینا اور ایسا خود کرنا بدنیتی ہے، منصوبہ پلاننگ کمیشن کے ڈیویلپمنٹ مینوئل میں درج قابل عمل اسٹڈی کے بغیر شروع کیا گیا، 50 ملین سے زیادہ کی لاگت کا اسکوپ بڑھانے کیلئے قابل عمل ہونے کی اسٹڈی ضروری ہے۔
دستاویزمیں بتایا گیا کہ منصوبہ ریکارڈ کے ساتھ 15 مارچ 2012 کو پنجاب حکومت کے حوالے کیا گیا، پنجاب اسپورٹس بورڈ کو منصوبے کی حوالگی کے باوجود احسن اقبال نے اس پر وفاقی حکومت کے فنڈزخرچ کیے۔رہنما مسلم لیگ (ن)پر الزام لگایا گیا کہ احسن اقبال نے بدنیتی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھایا جس کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔نیب دستاویز کے مطابق منصوبے کا ازسرنو پی سی ون تیار کیا گیا جس کی لاگت 2498.779 ملین تھی، نئے پی سی ون کی منظوری 17 جولائی 2014 کو سی ڈی ڈبلیو پی نے دی جس کی سربراہی خود احسن اقبال کر رہے تھے۔نیب کے مطابق منصوبے کا ایک اور پی سی ون تیار کرایا گیا جس کی لاگت 2994.329 ملین روپے تھی، سی ڈی ڈبلیو پی نے تین مئی 2017 کو اس کی منظوری دی۔