عدالتی احکامات :بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات شروع ،انکوائری سے پہلے ہی ایف آئی اے کا ایسا اعلان پی ٹی آئی حکومت کے پسینے چھوٹ گئے

12  دسمبر‬‮  2019

پشاور( آن لائن ) وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عدالتی احکامات پر پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تحقیقات شروع کردیں ۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اینٹی کرپشن نے ایڈیشنل ڈائریکٹر کی سربراہی میں 5 رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس نے پشاورڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

اس ضمن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر میاں سعید کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے لئے تکنیکی ماہرین کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ عدالتی احکامات کے مطابق تمام 35 سوالات پرتحقیقات کی جائے گی، کوشش کریں گے 45 دن میں بنیادی نکات کی نشاندہی کر لیں۔یاد رہے گزشتہ ہفتے پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو بی آر ٹی پبلک ٹرانسپورٹ منصوبے کی انکوائری 45 دن میں مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ میں بی آر ٹی پراجیکٹ پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ بی آر ٹی کے چیف ایگزکٹیو کو عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا؟عدالتی فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے ویژن اور منصوبہ بندی کے بغیر منصوبہ شروع کیا۔ مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ دیا گیا۔ کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑھا قرضہ لینے کی ضرورت تھی؟ بی آر ٹی کے قرضہ سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی۔عدالت نے کہا ہے کہ بی آر ٹی منصوبے نے 6 ماہ کی مدت میں مکمل ہونا تھا۔ سیاسی اعلانات کے باعث بی آر ٹی تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑی۔ پی ٹی آئی حکومت نے بی آر ٹی کو فیس سیونگ کے لیے شروع کیا۔

بی آر ٹی فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا۔ منصوبے میں بد انتظامی کے باعث 3 پراجیکٹ ڈائریکٹرز کو ہٹایا گیا۔ منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ سٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں۔ کمزور معیشت رکھنے والا صوبہ اس کا متحمل نہیں تھا۔

عدالت نے کہا ہے کہ لاہور میں میٹرو بس کی تعداد 65 ہیں، پشاور کے لیے 219 بسیں استعمال کی جانی ہیں۔ 155 بسیں فیڈر روٹس پر چلیں گی جن کو نجی ٹرانسپورٹرز چلائیں گے۔عدالت نے سوال کیا ہے کہ عوام کے پیسوں پر چلنے والی بسیں نجی ٹرانسپورٹرز کو کیوں دی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا۔ منصوبہ پشاور کے رہائشوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا۔عدالتی فیصلے میں سوال کیا گیا ہے سابق سیکرٹری پی اینڈ ڈی اور موجودہ وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری، سابق وزیراعلی پرویز خٹک ، ڈی جی پی ڈی اے سلیم وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرارالحق، اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد کے درمیان کیا تعلق تھا؟عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپنا حصہ لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…