اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی رانا عظیم کا حالیہ صورتحال پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان تمام حالات میں دیکھنا یہ ہو گا کہ خرابی ہے کہاں پر،میری اطلاع کے مطابق ایک نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے،اگر نوٹیفکیشن میں غلطی ہوتی ہے تو اس کو دیکھنے کے لیے پوری وزارت قانون موجود ہوتی ہے۔
وہاں پر ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو ان معاملات کو دیکھتی ہے،اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی موجود ہوتی ہے جن کو ان تمام باتوں کا پتہ ہوتا ہے کہ یہ سمری کہاں جانی ہے اور کہاں سے پاس ہونی ہے۔اگر اس معاملے میںکسی ایک سے غلطی ہوتی ہے تو اس کو چیک کرنے کے لیے وہاں پر اور کئی لوگ موجود ہوتے ہیں۔یہ ایک باقاعدہ سسٹم ہے۔رانا عظیم نے کہا ہے کہ یہ غلطی جان بوجھ کر نہیں ہوئی تاہم اس کو نا اہلی یا لاعلمی کہا جا سکتا ہے۔لیکن اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن،وزارت قانون اور وزارت دفاع نے اس غلطی کا جائزہ کیوں نہیں لیا،انہوں نے یہ نکتہ اعتراض کیوں نہیں اٹھایا۔حکومت اور اداروں کو اس معاملے کو دیکھنا ہو گا کہ یہ سازش کہاں سے ہوئی،اہم ترین ڈاکیومنٹس کسی تیسرے شخص کے پاس گئے ہیں اس کو یہ پٹیشن کس نے بھیجی ہے؟۔اہم ترین ادارے کی چیزیں کس طرح باہر نکلی ہیں۔کہیں یہ کوئی عالمی سازش تو نہیں۔رانا عظیم نے مزید کہا کہ عدلیہ قانون کے مطابق کام کر رہی ہے۔عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد امید ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ایک بہتر فیصلہ کرے گی۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس عدالتی فیصلے کی ذمہ دار صرف حکومت اور سرکاری مشینری ہے،جہاں جہاں سے یہ سمری گزر کر گئی ہے،جس جس نے پڑھی ہے۔یہ سب دیکھنا ہو گا۔کیوں کہ یہاں پر لوگ لاکھوں روپے تنخواہ لے کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ان میں سے کسی نے وزیراعظم کے سامنے ان غلطیوں کی نشاندہی کیوں نہیں کی؟