اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار مظہر عباس اپنے کالم ’’مولانا کی سیاست‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ایک زمانہ تھا جب عمران خان کو سیاست کا اتنا ہی پتا تھا جتنا مولانا فضل الرحمٰن کو کرکٹ کا۔ عمران کا سیاسی سفر 1996میں شروع ہوا جب مولانا کی سیاست کو 16سال ہوچکے تھے۔
وہ پہلی بار اپنی جماعت کے امیر 1980میں والد مولانا مفتی محمود کے انتقال کے بعد بنے جس زمانے میں عمران کا شمار دنیا کے تین بڑے آل رائونڈر میں ہوتا تھا۔ اب تو وہ سیاست میں بھی مولانا کو پیچھے چھوڑ گئےہیں۔عمران کو تمام بڑے سیاستدان برسوں ’’رد‘‘ کرتے رہے۔ ایک بار بےنظیر بھٹو مرحومہ جو عمران کو زمانہ طالب علمی سے جانتی تھیں مجھ سے کہنے لگیں ’’مظہر، تم عمران کو کتنا جانتے ہو۔ کیا وہ سیاست میں کامیاب ہوگا؟‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ وہ محنتی بہت ہے۔ آپ لوگوں کی خراب کارکردگی اس کی کامیابی بن سکتی ہے۔ وہ متبادل کے طور پر سامنے آسکتا ہے‘‘۔ یہ بات 1998کی ہے جب تحریک انصاف کو 1997کے الیکشن میں ایک نشست بھی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔مولانا فضل الرحمٰن کی کہانی ذرا مختلف ہے۔ وہ ایک انتہائی کٹر مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم بھی رہی ہے اور سیاسی بھی۔ ان کے والد مولانا مفتی محمود بہت زیرک سیاستدان تھے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے عروج پر 1970میں ان کو شکست دی تھی۔ بعد میں بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر سابق صوبہ سرحد جو اب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ بعد میں 1977کی تحریک نظام مصطفیٰ کی قیادت کی۔