اسلام آباد (این این آئی)ایک سنجرانی سب پہ بھاری کے نعرے،اہم سیاسی جماعت نے عین وقت پر سرپرائز دے دیا،اپوزیشن اراکین سینٹ ششدر، ووٹنگ کے دوران سینٹ میں دلچسپ صورتحال حکومتی ارکان ایک سنجرانی سب پہ بھاری کے نعرے لگاتے رہے، عین وقت پر جماعت اسلامی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر لاتعلق رہنے کا اعلان بھی موضوع بحث رہا،ووٹنگ کے بعدچیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی جس پر اپوزیشن اراکین سینٹ ششدر رہ گئے،
تحریک کی ناکامی کے ساتھ ہی وہ چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رہیں گے، قرارداد پر ووٹنگ کے دور ان میر حاصل بزنجو نے 50اور صادق سنجرانی نے 45ووٹ حاصل کئے، پانچ ووٹ مسترد ہوگئے، جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، چوہدری تنویر بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہ کر سکے، اسحاق ڈار نے حلف ہی نہیں اٹھایا،چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔ جمعرات کو سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر رائے شماری ہوئی،ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی۔پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ آئین کے مطابق قرارداد کے حق میں 50 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ قرارداد متعلقہ ایک چوتھائی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے، تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے جبکہ 5 ووٹ مسترد ہوئے۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔ قبل ازیں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی جس کی تصدیق کیلئے ووٹنگ کرائی گئی اور 64 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر راجا ظفر الحق کی قرارداد کی حمایت کی۔
اراکین کی جانب سے قراداد کی حمایت کے بعد پریزائیڈنگ افسر نے اراکین کو تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی اور حکومت کی جانب سے نعمان وزیر کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا،سینیٹر حافظ عبدالکریم نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا اور 104 سینیٹرز میں سے 100 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے۔جماعت اسلامی کے دو اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ ن لیگ کے چوہدری تنویر نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا
اور اسحاق ڈار نے تاحال سینیٹ کا حلف ہی نہیں اٹھایا ہے۔جماعت اسلامی کی جانب سے ووٹنگ کے عمل پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کے دو سینیٹرز بھی ایوان میں تشریف نہیں لائے۔ووٹنگ کے آغاز سے قبل پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے تمام سینیٹرز کو ووٹنگ کے طریقہ کار اور ضابطہ اخلاق سے آگاہ کیا۔یاد رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے نمبرز گیم کی جنگ سے قبل سیاسی گرما گرمی عروج پر رہی اور دونوں جانب سے عددی اکثریت کا دعویٰ کیا جاتا رہا۔اس سیاسی گرما گرمی میں دونوں جانب سے عددی اکثریت ظاہر کرنے کے لیے سینیٹ ارکان کی میٹنگز، کارنر میٹنگز، ناشتے، ظہرانے اور عشائیے رکھے گئے،
اپوزیشن نے صادق سنجرانی کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔خیال رہے کہقرارداد کے متن میں کہا گیا تھا کہ صادق سنجرانی بطور چیئرمین سینیٹ اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں۔اس موقع پر پریزائڈنگ افسر کی اجازت پر بات کرتے ہوئے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ رولز میں قرارداد پر بحث کی گنجائش موجود ہے تاہم ہم بحث نہیں کریں گے اور ایوان کے ماحول کو پرامن رکھنا چاہتے ہیں،حکومتی سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں قرارداد پیش کی گئی جسے منظور کرلیا گیا،قرارداد کی منظوری کے بعد پریزائڈنگ افسر نے تمام سینیٹرز کو ایک مرتبہ پھر ووٹنگ کا طریقہ کار بتایا
جس کے بعد ووٹنگ کے عمل کا آغاز کردیا گیا۔اجلاس کے دوران وزیر دفاع پرویز خٹک، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال الیانی، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، اے این پی رہنما میاں افتخار حسین سمیت دیگر اراکین بھی ایوان میں موجود تھے۔سینیٹ میں جماعتوں کی نمائندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 30 اراکین کے ساتھ اکثریت ہے، پی پی پی 20 اور پی ٹی آئی 17 اراکین کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہیں جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے 11، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے 6، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے 5، 5 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس ایک، ایک رکن ہے، اس کے علاوہ 5 اراکین آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔