اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود شریف خاندان کی تین شوگر ملوں نے گنا کے کاشتکاروں کو ڈیڑھ ارب روپے کی ادائیگی نہیں کی ہے۔ نادہندگان شوگرملوں میں سرفہرست رمضان شوگر مل چنیوٹ ہے جس کے مالکان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکومت پنجاب کو حکم دیا تھا کہ 30 جولائی 2019 ء تک گنا کے تمام کاشتکاروں کو ادائیگیاں کی جائیں اور ادائیگی نہ کرنے والے شوگر مل مالکان کے خلاف
حکومت پنجاب لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت کارروائی کرے۔ عدالتی فیصلے کو دو ہفتے کا وقت گزر گیا ہے جبکہ عدالت کی طرف سے جاری کئے گئے شیدول کا اج 30 جولائی آخری روز تھا لیکن شوگر ملیں کسانوں کے ڈیڑھ ارب ادا نہ کیا ہے اور نہ ہی عدالتی فیصلے کو کوئی اہمیت دی ہے جبکہ حکومت پنجاب بھی عدالتی فیصلے پر من و عن عمل درآمد کرانے میں سرگرم دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پنجاب کی صرف شریف خاندان کی ملکیتی شوگرملوں نے کسانوں کے اربوں روپے دبا رکھے ہیں۔ رمضان شوگر مل نے کسانون کے 58 کروڑ روپے دباء رکھے ہیں جبکہ شریف خاندان کی ایک اور شوگر مل العریبیہ نے 39 کروڑ پچاس لاکھ روپے کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ شریف خاندان کی تیسری شوگر مل عبداللہ شوگر مل نے بھی کسانوں کو بیس کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی ہے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء ذکاء اشرف کی ملکیتی شوگر مل کے ذمے چار کروڑ 88 لاکھ روپے واجب الادا ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنماء ہمایوں اختر خان کی ملکیتی تاندالیانوالہ شوگر ملنے کسانوں کو سات کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔ عدالت کے حکم پر عمل نہ کرنے والی شوگر ملوں کے خلاف لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت صرف حکومت پنجاب ہی کارروائی کر سکتی ہے تاہم پنجاب کے کیبن کمشنر شریف خاندان کے ذاتی ملازموں میں سے ایک ہیں لیکن کمشنر اپنی مٹھی گرم ہونے کے بعد کسانوں کی مددکے لئے نہ کوئی قانون کو حرکت میں لا رہے ہیں اور نہ کوئی کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ موجودہ کیبن کمشنر پنجاب شریف خاندان کے وفادار اور کرپٹ مافیا کا باقاعدہ حصہ ہیں
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اپنے کیبن کمشنر کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے جبکہ دپٹی کمشنر چنیوٹ بھی رمضان شوگر مل کے ستائے ہوئے غریب کسانوں کی مدد نہیں کررہے ہیں کیونکہ رزانہ سینکڑوں کسان ڈی سی آفس کے باہر مظاہرہ کرکے خالی ہاتھ گھر چلے جاتے ہیں جبکہ ڈی سی شریف خاندان کی وفاداری کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا چاہیے۔