اسلام آباد (این این آئی) سینٹ ہاؤس کمیٹی نے پارلیمنٹ لاجز میں لفٹ کی خراب حالت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئر مین سی ڈی اے کو طلب کرلیا ہے جبکہ چیئر مین کمیٹی سلیم مانڈوی والا سی ڈی اے حکام پر پھٹ پڑے اور کہاہے کہ سی ڈی اے پسند نا پسند پر کنسلٹنٹ بھرتی کرتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں،اگر کوئی ہنگامی صورتحال ہوئی تو کون ذمہ دار ہوگا؟اب لاجز معاملے پر سی ڈ ی اے کو کوئی ایڈوینچر
نہیں کر نے دینگے۔ منگل کو سینیٹ ہاؤس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس کے دور ان سلیم مانڈوی والا نے ڈی جی سول ڈیفنس کا استفسار کیا کہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ماک ایکسرسائز کا کہا گیا تھا۔ ڈی جی سول ڈیفنس نے جواب دیا کہ پارلیمنٹرینز کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ اگر وہ جواب نہیں دینگے تو ہم ماک ہی نا کریں، حیرت کی بات ہے،اگر کوئی ہنگامی صورتحال ہوئی تو کون ذمہ دار ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹرز اگر تیار ہیں تو آپ ممکن بنائیں کہ ماک ایکسرسائز ہو۔انہوں نے کہاکہ لاجز کی لفٹ کی حالت اتنی خراب ہے جیسے لفٹ بننے سے ابھی تک اسے کسی نے دیکھا ہی نہیں۔انہوں نے کہاکہ ان لفٹوں میں کوئی موجود بھی نہیں ہوتا، اگر کوئی ہنگامی صورتحال ہوئی تو کون ذمہ دار ہو گا۔انہوں نے کہاکہ سی ڈی اے پسند نا پسند پر کنسلٹنٹ بھرتی کرتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، اب لاجز کے معاملے پر سی ڈی اے کو کوئی ایڈوینچر نہیں کرنے دینگے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے چیئرمین سی ڈی اے کو طلب کر لیا انہوں نے کہاکہ اتنے اہم ایجنڈے ہیں چیئرمین سی ڈی اے بھی نہیں اور ممبر انجینئرنگ بھی نہیں۔ نگہت مرزا نے کہاکہ ای بلاک میں کی لفٹ پچھلے چار دن سے خراب ہے، بار بار شکایت کے باوجود بھی انکوائری کا محکمہ کوئی کام نہیں کرتا۔ انہوں نے کہاکہ سی ڈی اے افسران نے اپنے گھروں لفٹ آپریٹروں کو رکھا ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ پردوں پر دھبے لگے ہوئے ہیں الماریوں پر دیمک لگی ہوئی ہے۔ڈائریکٹر لاجز نے کہاکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ممبر نے فون کیا ہو اور ہم نے نا اٹھایا ہو،ای بلاک کی لفٹ خراب ہے جس کمپنی کی لفٹ ہے اس سے انورٹر منگوایا ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہاکہ گزشتہ روز پارلیمنٹ کی لفٹ گر گئی تھی۔ سلیم مانڈوی والا نے
کہاکہ 8 دن سے لفٹ خراب ہے اور ٹھیک نہیں ہو رہی تو شرمندگی کی بات ہے۔ نگہت مرزا نے کہاکہ ان سے نہیں ہوگا انہوں نے میلے کچیلے لوگ رکھے ہوئے ہیں، سی ڈی اے کے لوگ فون اٹھاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے قبر سے بات کر رہے ہیں۔نگہت مرزا کے جملے پر قائمہ کمیٹی میں قہقہے لگے۔ چیئر مین نے کہاکہ اگر سی ڈی اے سے لفٹ ٹھیک نہیں ہو رہی تو ہم کمپنی کو براہ راست فون کرتے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے استفسار کیا کہ لاجز میں لانڈری اور دوکانوں کی انکوائری کا کیا بنا۔ ڈی سروسز نے بتایاکہ اس معاملے پر انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ ایسا لگ رہا ہے جیسے اصغر خان کیس کا معاملہ کے ختم ہی نہیں ہو رہا۔ ڈی جی سروسز نے کہاکہ 22 جولائی کو ہمیں ہدایات موصول ہوئیں ہیں ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرینگے۔ جوائنٹ سیکرٹری صحت نے بتایاکہ ایمبولینس
خریدنے کے لیے 60 لاکھ روپے کا بجٹ چاہیے تھا،سابق وزیر صحت عامر کیانی کو سمری بھجوائی دی تھی، عامر کیانی نے ایمبولینس خریدنے سے منع کر دیا تھا۔ سر دار شفیق ترین نے کہاکہ اسی لیے تو عامر کیانی کی وزارت چلی گئی۔ کلثوم پروین نے کہاکہ ایمبولینس کے دو ڈرائیورز کا ریکارڈ ہے مگر ڈرائیور نہیں ہوتے۔ سینیٹر ثمینہ سعید نے کہاکہ ڈسپنسری میں کوئی بھی فون نہیں اٹھاتا کوئی ہو تو اٹھائے۔