اسلام آباد (آن لائن) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے بعد ملک پر دشمنوں کی طرف سے حملے ہونا شروع ہوگئے ہیں اور پاکستان فوج کے دس جوان شہید ہوئے ہیں اس پر وزیر خارجہ کو پالیسی بیان دینا چاہیے اور ایوان میں اس پر بحث ہونی چاہیے جو اراکین اسمبلی گرفتار ہیں ان کے سپیکر قومی اسمبلی کو پروڈکشن آرڈر جاری کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم کی ڈکٹیشن میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ جیل میں جو سلوک ہورہا ہے ایسا سلوک تو دشمن ملک کے کسی قیدی سے بھی نہیں کیا جاتا۔
عرفان صدیقی نے کہاکہ کیا انہوں نے بکری چورالی تھی جو ان کو ہتھکڑی لگائی گئی تھی اپوزیشن اس ایوان کو چلانا چاہتی ہے لیکن اگر کوئی واقعہ ہوگیا تو حکومت ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ وفاقی وزیر برائے خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جوڑا ہوا ہے افغانستان کے پانچ سے چھ لوگ پاکستان آئے تھے جو افغانستان میں صدر کے امیدوار تھے جن سے بات ہوئی تھی وزیراعظم پاکستان نے امریکہ دورے میں پاکستان کا موقف پیش کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکلات ہیں لیکن ان مسائل کا حل مل کر نکالنا ہوگا۔ خارجہ کی کمیٹی کا اجلاس بلالیا ہے جس میں تمام پارتیوں کے اراکین شامل ہیں اس کمیٹی میں وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار اپوزیشن لیڈر اور وزیر خارجہ نے پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہمارے نوجوان قربانیاں دے رہے ہیں۔ وزیراعظم امریکہ کی یاتر سے واپس آئے ہیں اور دشمنان پاکستان چھپ کر کارروائی کرتے ہیں اور یہ دشمن کون ہیں افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن کے لئے کوششیں جاری ہیں اس پر وزیر خارجہ کو اس ایوان کو اعتماد میں لیں کہ کون پاکستان کا امن تباہ کرنے کیلئے دن رات لگے ہوئے ہیں۔ اہوں نے کاہ کہ حالیہ واقعے پر وزیر خارجہ کی طرف سے پالیسی بیان آئے اور اس ایوان میں اس پر بحث ہونی چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ کون ہے جو اس سازش کے پیچھے ہیں اور جو اراکین اسمبلی موجود نہیں ہیں ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے گئے
سپیکر قومی اسمبلی تمام اراکین کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کریں اور بغیر کسی کی ڈکٹیشن یعنی وزیراعظم کی ہدایات کے بغیر اپنی مرضی سے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔ میں رانا ثناء اللہ سے ملنے کیلئے درخواست منظور نہ کی گئی لیکن عدالت میں بڑی مشکل سے ان سے ملا ہوں۔ ان کو الگ بیرک میں رکھا گیا ہے جو زمین پر سو رہے ہیں کوئی بیڈ نہیں چارپائی نہیں کرسی نہیں دشمن ملک کے لوگوں س بھی ایسا سلوک نہیں کیا ج اتا۔ ان کو زمین پر سونے پر مجبور کیا جارہا ہے ان کی فیملی اور داماد کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے
مجھے روکنے کیلئے پوری مشنری حرکت میں آگئی لیکن رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی نے مجھے کہا کہ میر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا نہ کہیں یہ ان کی جوان مردی ہے کہ وہ سب برداشت کررہے ہیں اسی طرح آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کریں ورنہ تاریخ آپ کو یاد رکھے گی۔ عرفان صدیقی نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اور حکومتی اراکین کو یاد آگیا اوران کی ضمانت کروا دی ان کا جرم کیا تھاکیا انہوں نے بکری چورالی تھی اپوزیشن چاہتی ہے کہ یہ ایوان اچھی طرح چلتا رہے اور جمہوری عمل چلتا رہے اگر کوئی حادثہ ہوا تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جن جوانوں نے جان کا نذرانہ دے کر اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کیا ہے ان کو یہ ایوان سلام پیش کرتا ہے اس کی وجہ کیا ہے اگر 2015 ء میں ہماری صورتحال کیا تھی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے جنوبی ایشیا ء کی پالیسی کا اعلان کیا ہے تمام قباحتوں کا ذمہ دار پاکستان ہے تمام پروگرام معطل کردیئے گئے ایسے حالات میں تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی ہے۔ 11 ماہ میں سوچ میں تبدیلی آئی ہے امریکہ اور ان کے ساتھی تھے جو سوچھتے تھے کہ وہ طاقت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں گے۔ لیکن عمران خان نے کہا کہ مسئلے کا حل بات چیت سے ہے
لیکن یہ آسان سفر نہیں ہے مشکل کل بھی تھی او رآج بھی ہے لیکن آج اللہ نے پاکستان کو کامیابی دی ہے انہوں نے کہا کہ امن کی لئے ہمیں اپنی طرف سے جو اقدامات اٹھائے ہیں اور دوسری طرف میں اقدامات اٹھائے تھے ملک مین نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اقدامات اٹھائے۔ ترامیم کے ذریعے فاٹا کو کے پی کے کا حصہ بنایا اور وہاں الیکشن ہوئے ہیں۔ جس کو دنیا نے تسلیم کیا ہے اس بحث میں تسلیم کی اگیا کہ وہاں لوگوں کے گھر تباہ ہوئے تھے وہاں بحالی کیلئے 162 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ افغان بارڈر پر باڑ لگائی جارہی ہے اسی دوران بھی ہمارے جوان شہید ہوئے ہیں ہماری خواہش ہے کہ مفاہمتی عمل اپنے انجام کو پہنچے
ہم نے امریکہ میں ثابت کردیا کہ امن کا عمل آگے بڑھ رہا ہے اور اس کو تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ جرمنی ناروے سے بھی اس پر حصہ لرہے ہیں اوسلو میں اب اس میں شامل ہورہا ہے۔ تین مرتبہ افغان قیادت سے ملا ہوں صدر اشرف غنی پاکستان آئے ہیں اور بات آگے بڑھی ہے۔ پانچ سے چھ ایسی شخصیات کو بلایا گیا جو افغانستان میں صدر کے امیدوار ہیں جن سے بات ہوئی ہے وزیراعظم پاکستان نے امریکہ میں اپنا موقف پیش کیا اور ماحول کو سازگار کیا۔ اس میں یقیناً مشکلات ہیں لیکن ان مسائل کے حل کیلئے تمام پارٹیوں کو مل کر چلنا ہوگا۔ ہمارا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے اس لئے ہمیں یک زبان ہوکر بات کرنا ہوگی اور اپوزیشن کا نقطہ نظر کو سننا چاہیئے اور فوری طور پر خارجہ کی کمیٹی جس میں تمام پارٹیوں کے اراکین ہیں اس کا اجلاس بلالیا ہے اور امریکہ کے دورے پر اعتماد میں لیا جائے گا۔