کوئٹہ (این این آئی) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جعلی حکومت کسی صورت قبول نہیں اب یہ مزید نہیں چلے گی،یقین ہے بڑی سیاسی جماعتیں حکومت گرانے میں ہمارا ساتھ دیں گی،آنے والا ہر دن اہم ہے حکومت کھوکھلی دیوار ہے جسے جلد ہی گرائیں گے،ملک میں احتساب کے نام پر ڈھونگ اور سیاسی گرفتاریاں جاری ہیں چیئر مین سینیٹ کو ہٹانے کا مسئلہ سیاسی ہے اسے کسی صوبائیت یا قومیت کے خلاف اقدام کا رنگ نہ دیا جائے،
حاصل بزنجو بھی بلوچ اور انکا تعلق بلوچستان سے ہی ہے صادق سنجرانی کے آنے سے بلوچستان کوکو نسے پر لگ گئے؟یہ بات انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ آمد کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری،جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر ورکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع مرکزی، صوبائی جنرل سیکرٹری و رکن قومی اسمبلی آغا محمود شاہ،مولانا راشد سومرو، اراکین صوبائی اسمبلی میر زابد ریکی، اصغر ترین،یونس عزیز زہری سمیت دیگر بھی موجود تھے، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم پاکستان کی حقیقی آزادی، خود مختاری، نظریاتی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتے جعلی حکومت اب مزید نہیں چلے گی ہم اسے اسکے انجام تک پہنچائیں گے لہذا حکومت عوامی قوت کے سامنے سر تسلیم خم کر لے ہم نے 13ملین مارچ پر امن طریقے سے کیے ریاستی اور حکومتی ادارے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں تو وہ انکی ذمہ داری ہے،ریاست حکومت کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں علل اعلان کہتا ہوں جعلی حکومت قبول نہیں جعلی وزیراعظم کو استقبال نہ کر کے ہمارے موقف کو ٹرمپ نے بھی تسلیم کرلیا،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن متحد ہے ہم ایک تحریک کی جانب بڑھ رہے ہیں اکتوبر،نومبر سمیت آنے والا ہر دن اہم ہے گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا دینے کی ضرورت ہے یہ حکومت کھوکھلی ہے اسے سہارا دیکر بھی کھڑا نہیں رکھا جا سکتا،
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں احتساب نہیں ڈھونگ اور ناٹک ہورہا ہے ملک میں سیاسی گرفتاریاں جاری ہیں سیاسی قائدین کو انتقام کا نشانہ بنا ہر زمانے میں ہوا ہے سیاسی لوگوں نے قانون، احتساب کے غلط استعمال کا مقابلہ کیا ہے،انہوں نے کہا کہ لبررلز کہتے ہیں کہ ہم مذہب کا غلط استعمال کر رہے ہیں لیکن دراصل غلط استعمال حکومت کی جانب سے ہو رہا ہے کچھ لوگوں نے ہم پر الزام لگا یا کہ ہمارے پشاور کے ملین مارچ میں مدرسے کے کم عمر طالب علم آئے تھے اور ہم مذہبی معاملات سیاست کے لئے استعمال کر رہے ہیں
10لاکھ سے زائد لوگوں میں سے چند لوگوں کی تصاویر لگانے والے بھول گئے ہیں کس طرح زچہ بچہ سینٹر،سکول کالج کی بچیوں کی حرمت سے 120دن مذاق کرتے ہوئے انہیں دھرنے میں نچایا گیا سربازار رقص و سرور کے مناظر تین سے چار ماہ جاری رہے اس وقت بچیوں، کم عمر اور معصوم لوگوں کا احساس نہیں ہوا،انہوں نے کہا کہ ملین مارچ میں عوام کا سمند ر تھا ان میں مدرسے کے طلبا ء کی تعداد 10سے 20ہزار سے زائد نہیں تھی جو لوگ ملین مارچ میں آئے وہ حکومت کے خلاف ہمارا ساتھ دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ کیا مدرسے کے طلباء کے ووٹ نہیں ہیں
ایک طرف مدارس کو مین سٹریم کا حصہ بنا نے کی بات جاتی ہے دوسری جانب اس طرح سے مدارس کے طلباء کا راستہ روکا جارہا ہے مدارس کے طلبا ء لبرلز اور حکمرانوں سے زیادہ پاکستان کے وفادار شہری ہیں،انہوں نے کہا کہ کل کو کہیں گے جمہوریت، انسانی حقوق کو سیاست کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ہم آئین وقانون کی بات کرتے ہیں آئین کہتا ہے تمام قوانین قرآن و سنت، زندگی اسلامی تعلیمات کی تابع ہوگی،عربی کولازمی مضمون قرار دیا جائیگا،عقیدہ ختم نبوت کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج اور توہین رسالت کی سزا موت یہ میں نہیں آئین کہہ رہا ہے اگر آئین کے ان حصوں پر حملہ کیا گیا تو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مذہب لاوارث نہیں ہے،
لبرلز مافیاء کے چراغ بجھ رہے ہیں اب وہ سیاسی نہیں کرنے دیں گے،انہوں نے کہا کہ امریکہ کہتا ہے کہ وہ یہ قوانین ختم کردے گا ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کے مرتکب کے بارے فخریہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے انہیں چھڑوا دیا اور مذہبی لوگوں کے بارے میں کہا جائے کہ ہم نے انہیں گرفتار کروادیا کیا یہ اس لئے پاکستان کوحاصل کیا گیا،انہوں نے کہا کہ ملکی نظریاتی بنیاد کی جنگ آسان نہیں ہے ہم عوام کی آواز بن رہے ہیں لوگ حکومت جانے کے منتظر ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئر مین سینیٹ کا متبادل بھی بلوچستان سے ہیں کیا وہ بلوچ نہیں ہیں یہ فیصلے سیاسی طور پر جماعتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں علاقایت اور قومیت کو استعمال کیا جاتا ہے کیا صادق سنجرانی کے آنے سے بلوچستان کو پر لگ گئے ہیں یقین ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں ساتھ دیں گی اضطراب پیدا نہ کیا جائے،بلاول بھٹو نے 25جولائی کو عمران خان کے دورہ امریکہ سے متعلق پوزیشن واضح کر دی ہے انہوں نے کہا کہ ملک کا میڈیا آزاد نہیں ہم میڈیا کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔